اسمگلنگ والا سامان خریدنا کیسا ؟

مجیب:مولانا فراز مدنی زید مجدہ

مصدق:مفتی علی اصفر صاحب مد ظلہ العالی

فتوی نمبر: Gul-1883

تاریخ اجراء:08رجب المرجب1441ھ/04مارچ2020ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

    کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین  اس مسئلے کے بارے میں کہ جس شخص کے بارے میں علم ہو کہ یہ اسمگلنگ کرکے سامان لاتا ہے اور بیچتا ہے،اس شخص سے وہ اسمگلنگ والا سامان خریدنا کیسا ہے؟  

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

    اسمگلنگ کرنا اوراسمگلرسے سامان خریدنا دونوں کام ناجائزوگناہ ہیں،کیونکہ یہ غیرقانونی ہے اور اس کام کے کرنے سے خود کو ذلت پرپیش کرنا پایا جاتا ہے کہ اگرپکڑے گئے ، تو سزا کا سامنا کرنا ہوگااور خود کو ذلت پرپیش کرنا ازروئےحدیث ناجائزوحرام اورگناہ کاکام ہے، البتہ وہ چیز خود کوئی حرام چیز نہیں اورنفس بیع کے نافذ ہونے کی تمام شرائط پائی گئیں ، توبیع نافذ ہوجائے گی اورخریدنے والا اس چیز کا مالک بن جائے گا۔

    حدیث پاک میں ہے:”عن حذیفۃ رضی اللہ تعالی عنہ قال:قال رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم:لا ینبغی للمؤمن ان یذل نفسہ“ترجمہ:حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے،فرمایا:رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:مومن کو نہیں چاہیے کہ وہ اپنے نفس کو ذلت پرپیش کرے۔

                 (ترمذی شریف جلد2،صفحہ498،مطبوعہ لاھور)

    مرقاۃ المفاتیح میں اس حدیث کے تحت فرمایا:” (لا ینبغی) ای لایجوز ( للمؤمن ان یذل نفسہ)ای باختیارہ“ ترجمہ:حدیث پاک کا مطلب یہ ہے کہ  مومن کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ اپنے اختیار سےاپنے آپ  کو ذلت پرپیش کرے۔

(مرقاۃ المفاتیح، جلد5،صفحہ416،مطبوعہ کوئٹہ)

    مبسوط للسرخسی میں ہے:”اذلال النفس حرام“ ترجمہ:خود کو ذلت پرپیش کرنا حرام ہے۔

(المبسوط للسرخسی ،جلد5،صفحہ23،مطبوعہ کوئٹہ)

    اعلیٰ حضرت امام اہلسنت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن فرماتے ہیں:’’کسی قانونی جرم کا ارتکاب کرکے اپنے آپ کو بلاوجہ ذلت وبلا کے لیے  پیش کرنا شرعاً بھی جرم ہے۔کما استفید من القرآن المجید والحدیث ‘‘

(فتاوی رضویہ، جلد23،صفحہ581،مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن ،لاھور)

    وقارالفتاوی میں خاص اسمگلنگ کے متعلق فرمایا:”اسمگلنگ کرنا یا اسمگلنگ کا مال بیچنا اورخریدنا اس لیے ناجائز ہے کہ یہ ملک کے قانون کے خلاف ہے اورمسلمان کو خلافِ قانون کوئی کام کرنا، جائز نہیں ہے،اس لیے کہ خلافِ قانون کام کرنے سے جب پکڑا جائے گا ،تو پہلے جھوٹ بولے گا،اگرجھوٹ سے کام نہ چلا تو رشوت دے گا،رشوت سے بھی کام نہ چلا تو سزا ہوگی ،جس میں اس کی بے عزتی ہے۔مسلمان کوئی ایسا کام ہی نہ کرے جس سے جھوٹ بولنا یا رشوت دینا پڑے یا جس سے اس کی بے عزتی ہو،مگرایسا کرنے والا گنہگارہونے کے باوجود مال کا مالک ہوجاتا ہے،جبکہ بیع،شریعت کے مطابق ہو،جب مال میں حرمت نہیں آئی، تو اپنا مال ہرکام میں خرچ کرسکتا ہے۔‘‘

(وقارالفتاوی ، جلد1،صفحہ252،مطبوعہ کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ  عَزَّوَجَلَّ  وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم