چوری کا مال سستا مل رہا ہو تو خریدنا کیسا؟

مجیب:مولانا سید مسعود علی مدنی زید مجدہ

فتوی نمبر:03

تاریخ اجراء:03ربیع الثانی1442ھ/19نومبر2020ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

    کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ ایک چیز کا پتہ ہو کہ یہ چوری کی ہے اور سستی مل رہی ہو تو خریدنا کیسا؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

    جب معلوم ہے کہ یہ چوری کا مال ہے تو اس کا خریدنا حرام و گناہ ہےبلکہ اگر یقینی طور پر معلوم نہ ہو لیکن کوئی واضح قرینہ ہو جس کی بنیاد پر یہ گمان قائم ہو کہ یہ چوری کا مال ہے تب بھی خریدنا، جائز نہیں۔  ہاں اگر معلوم نہ ہو اور نہ ہی کوئی ایسا قرینہ ہو تو خریدنا، جائز ہے لیکن خریدنے کے بعد معلوم ہوگیا کہ یہ چوری کا ہے تو اب اس کا استعمال جائز نہیں بلکہ مالک کو واپس کرنا لازم ہے۔

    اعلیٰ حضرت امام اہلسنت مولانا شاہ امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن فرماتے ہیں:”چوری کا مال دانستہ (جان  بوجھ کر) خریدنا حرام ہے بلکہ اگر معلوم نہ ہو مظنون(گمان غالب) ہو جب بھی حرام ہے مثلاً کوئی جاہل شخص کہ اس کے مورثین بھی جاہل تھے کوئی  علمی کتاب بیچنے کو لائے اور اپنی ملک بتائے  اس کے خریدنے کی اجازت نہیں  اور اگر نہ معلوم ہے نہ کوئی واضح قرینہ تو خریداری جائز ہے، پھر اگر ثابت ہوجائے کہ یہ چوری کا مال ہے تو اس کااستعمال حرام ہے بلکہ مالک کو دیا جائے اور وہ نہ ہو تو اس کے وارثوں  کو، اور اُن کا بھی پتہ نہ چل سکے تو فقراء  کو۔

(فتاویٰ رضویہ،جلد 17، صفحہ 165، رضا فاؤنڈیشن لاہور)

وَاللہُ اَعْلَمُ  عَزَّوَجَلَّ  وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم