دکاندار کا جھوٹ بول کر کہ ’’ میرے پاس کُھلے پیسے نہیں ہیں ‘‘ چیز بیچنا کیسا ؟

مجیب:مفتی قاسم صاحب مدظلہ العالی

فتوی نمبر: Pin-6699

تاریخ اجراء:03شعبان المعظم1442ھ18مارچ2021ء

دَارُالاِفْتَاء اَہْلسُنَّت

(دعوت اسلامی)

سوال

    کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس  مسئلے کے بارے میں کہ میں فروٹ بیچتا ہوں،اس جگہ پہ اور کئی افراد بھی فروٹ کا کام کرتے ہیں،جب کوئی گاہگ خریداری کے لیے آتا ہے اور فروٹ خرید کراس کی قیمت سےبڑا نوٹ دیتا ہے،تو بیچنے والا یوں کہتا ہے کہ میرے پاس کھلے پیسے نہیں ،اتنے کا مزید فروٹ خرید لیجئے،حالانکہ اس کے پاس کھلے پیسے ہوتے بھی ہیں  اور بعد میں وہ اس چیز کا اظہار بھی کرتا ہے کہ میں نےآج اس انداز سے فروٹ بیچا ہے،حالانکہ میرے پاس کھلے پیسے بھی تھے۔مارکیٹ میں یہ رواج کافی بڑھتا جا رہا ہے اور کچھ لوگ باقاعدہ الگ سے اس طرح کے نوٹ رکھتے ہیں اور گاہگ کے سامنے وہی نکالتے ہیں،تاکہ اسے اطمینان ہو جائے کہ واقعی اس کے پاس کھلے پیسے نہیں ،حالانکہ اس کے پاس  کھلے پیسے موجود ہوتے ہیں۔دکانداروں کا اس طرح کرنا شرعاً کیسا ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

    اسی طرح کی حرکتوں کی وجہ سے حدیث میں تاجروں کو فاسق و فاجر قرار دیا گیا ہے، ورنہ تجارت بہت عمدہ اور بابرکت چیز ہے،حتی کہ اللہ پاک نے رز ق کے دس حصوں میں سے نو حصے اسی میں رکھے ہیں۔لہذا مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ اس عظیم نعمت کی قدر کرتےہوئے خریدوفروخت کے تمام معاملات شریعت کے مطابق سرانجام دیں ،اس میں ایسا کوئی بھی کام نہ کریں ،جو شریعت کے خلاف ہوکہ اس کی وجہ سے ایک تو(بعض صورتوں میں)گناہ ہو گا اوردوسرا تجارت سے برکت بھی اٹھا لی جائے گی۔

    اور جہاں تک پوچھی گئی صورت کا تعلق ہےتو یاد رہے کہ’’ کھلے پیسے ہونے کے باوجود دکاندار کا گاہک کے سامنے بڑے نوٹ نکالنا اور اسے یوں کہنا کہ میرے پاس کھلے پیسے نہیں‘‘تو یہ سخت ناجائز ،حرام اور گناہ ہے ،کیونکہ یہ جھوٹ اور دھوکہ ہے اور یہ دونوں کبیرہ گناہوں میں سے ہیں۔نیز دکاندار کا ان گناہوں کا ارتکاب کرنے کے بعد انہیں دوسروں کے سامنے ظاہر کرنا بھی جائز نہیں،کیونکہ بلا ضرورتِ شرعی گناہ کا اظہار بھی گناہ ہوتا ہے۔مزید یہ بھی یاد رہے کہ جو شخص کوئی بُرا کام شروع کرتا ہے،اس کا گناہ تو اسے ملتا ہی ہے،لیکن بعد میں  جتنے بھی افراد اس کا ارتکاب کرتے ہیں ،ان سب کا گناہ بھی شروع کرنے والےکو ملتا ہےاوران کے اپنے گناہ میں کوئی کمی نہیں ہوتی۔

    حضور صلی اللہ علیہ وسلم نےارشاد فرمایا:’’تسعة اعشار الرزق فی التجارۃ‘‘ترجمہ:  رزق کے دس حصوں میں سے نو حصے تجارت میں ہیں۔

(کنز العمال،جلد4،صفحہ30،مؤسسۃ الرسالہ)

    خریدوفروخت میں خلافِ شرع چیزوں کا ارتکاب کرنے سے برکت ختم ہوجاتی ہے ۔چنانچہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:’’ البيعان بالخيار ما لم يتفرقا، او قال:حتى يتفرقا ، فان صدقا وبينا بورك لهما في بيعهما، وان كتما وكذبا محقت بركة بيعهما ‘‘ ترجمہ:خریدوفروخت کرنے والوں کو خیار حاصل ہے،جب تک دونوں جدا نہ ہو جائیں یا فرمایا:یہاں تک کہ وہ جدا نہ ہو جائیں۔پس اگر دونوں سچ بولیں اور (بیچی جانے والی چیزکے)عیب کو بیان کر دیں، تو دونوں کے لیے خریدوفروخت  میں برکت ڈال دی جائے گی اور اگر عیب کو  چھپائیں اور جھوٹ بولیں، توان کی خریدوفروخت سے برکت مٹا دی جائے گی

(صحیح البخاری،کتاب البیوع،جلد1،صفحہ283،مطبوعہ کراچی)

    اور جھوٹ کے بارے میں ارشاد فرمایا:’’ایاکم والکذب ،فان الکذب یھدی الی الفجور،وان الفجور یھدی الی النار ۔۔الخ‘‘جھوٹ سے بچو، بیشک جھوٹ گناہ کی طرف لے جاتا ہے اور گناہ جہنم کی طرف لے جاتے ہیں۔

 (سنن ابی داؤد ،کتاب الادب ،جلد2،صفحہ339،مطبوعہ لاھور)

    اورتاجروں کے بارے میں ارشاد فرمایا:’’التجار یحشرون یوم القیامۃ فجارا ،الا من اتقی اللہ وبر وصدق‘‘ترجمہ:بروزِ قیامت تاجر گنہگاراٹھائے جائیں گے،مگر وہ جو اللہ سے ڈرے،بھلائی کرے  اورسچ بولے۔                                     

(سنن دارمی،جلد3،صفحہ1692،مطبوعہ عرب شریف )

    اوردھوکے کے بارے میں  ارشاد فرمایا :’’من غش فليس مني‘‘ترجمہ: جس نے دھوکا دیا وہ مجھ  سے نہیں۔ (یعنی اس کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں)۔                                                                    

(الصحیح لمسلم ،کتاب الایمان،جلد1،صفحہ70،مطبوعہ کراچی)

    بلاوجہ شرعی گناہ کا اظہار بھی گناہ ہے۔چنانچہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:’’ کل امتی معافی الا المجاھرین وان من المجاھرۃ ان یعمل الرجل باللیل عملا ثم یصبح وقد سترہ اللہ علیہ فیقول یا فلان عملت البارحۃ کذا وکذا وقد بات یسترہ ربہ ویصبح یکشف سترہ اللہ عنہ‘‘ترجمہ:میری تمام امت سے درگزر فرمایاجائے گا،سوائے اعلانیہ گناہ کرنے والوں کے اور یہ بھی اعلانیہ گناہ  ہے کہ ایک شخص رات کو کوئی گناہ کرے،پھر صبح اس حال میں کرے کہ اللہ پاک نے اس کے گناہ پر پردہ ڈالے رکھااور وہ کہے:اے فلاں!میں نے رات کو ایسے ایسے گناہ کیا تھا،حالانکہ رات گزر گئی کہ اللہ پاک نے اس کے گناہ کو چھپایا ہوا تھا اور یہ صبح اسی چیز کو ظاہر کرنے لگا جسے اللہ پاک نے چھپایا ہواتھا۔

(صحیح البخاری،کتاب الادب،باب سترالمؤمن علی نفسہ،جلد2،صفحہ896،مطبوعہ کراچی)

    بُراکام شروع کرنے کے بعد جتنے بھی لوگ اس کا ارتکاب کریں گے،ان سب کا گناہ بھی شروع کرنے والے کو ملے گا۔چنانچہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:’’من دعا الی ھدی کان لہ من الاجر مثل اجور من تبعہ لا ینقص ذلک من اجورھم شیئا ومن دعاالی ضلالۃ کان علیہ من الاثم مثل اثام من تبعہ لا ینقص ذلک من اثامھم شیئا‘‘ترجمہ:جو کسی کو سیدھے راستے کی طرف بلائے، تو جتنے بھی لوگ اس کی پیروی کریں گے،اُن سب کے برابر اس (بلانے والے )کو بھی ثواب ملے گا اور پیروی کرنے والوں کے ثواب میں کچھ کمی نہ ہو گی اور جو برائی کی طرف بلائے، تو جتنے بھی لوگ اس کی پیروی کریں گے ،ان سب کے برابر اس کو بھی گناہ ملے گا اور پیروی کرنے والوں کے گناہ میں کچھ کمی نہ ہو گی ۔

(الصحیح لمسلم ،کتاب العلم ، جلد2،صفحہ341،مطبوعہ کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ  عَزَّوَجَلَّ  وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم