پریمئیم پرائز بانڈ کا شرعی حکم ؟

مجیب:مفتی ہاشم صاحب مدظلہ العالی

فتوی نمبر:Lar-10745

تاریخ اجراء:16ذوالحجۃ الحرام1442ھ/27جولائی2021ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

    کیا فرماتے ہیں علمائےدین و مفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ ابھی حکومت نے Premium Prize Bondپر دو طرح کے Options دیے ہیں(1)آپ نے اس پر نفع  ”جو کہ 660روپے بنتا ہے“  لینا ہے (2)یا نفع نہیں  لینا۔نفع نہ لینے کی صورت میں  صرف قرعہ اندازی میں نام شامل ہو گا اور انعام نکلنے کی صورت میں انعام مل جائے گا ،جیسا کہ عام بانڈز میں ہوتا ہے۔اس صورت میں اگر ہم سود  نہ لینے والے آپشن کو  استعمال کرتے ہیں،تو کیا ہمارے لیے  پریمئیم  بانڈ کا لینا اور اس پر انعام وصول کرنا ،جائز ہو گا یا نہیں ؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

    اولاً یہ بات ذہن نشین رہے کہ پریمئیم پرائز بانڈ کی حیثیت محض اکاؤنٹ میں جمع کردہ قرض کی رسید کی ہے،یہی وجہ ہے کہ  اس بانڈکا گم ہوجانا،چوری ہونا یاجل جانا بھی کوئی نقصان  کی بات نہیں ہے،یعنی اگریہ بانڈکسی کاچوری ہوجائے یاگم ہوجائے،توچورکے لیے یہ  محض ایک کاغذکاٹکڑاہے جس کی کوئی قیمت نہیں کہ اس سے نفع اٹھاسکے، بلکہ اصل مالک جس کے نام پر یہ جاری ہواہے وہ اس رسیدکامتبادل حاصل کرسکتاہے اوریہ اس چیزکی دلیل ہے کہ یہ بانڈ خودمال نہیں، بلکہ جمع شدہ مال کی رسیدہے،کیونکہ اگریہ خودمال ہوتاتودیگربانڈزاورکرنسی کی طرح گم ہونے،جل جانےیاچوری ہوجانے پرمالک کونقصان ہوتااورچورکےلیے وہ ایک قابل نفع مال ہوتا،حالانکہ پریمئیم پرائزبانڈایسانہیں ہے،بلکہ محض قرض کی رسید ہے اور اس کے بدلے میں جمع کروائی جانے والی رقم قرض ہے اور اس پر دو طرح  کا نفع حاصل ہوتا ہے،  ایک یہ کہ   فکس 660 روپے ملتے ہیں اور دوسرا یہ کہ قرعہ اندازی میں نام شامل کر دیا جاتا ہے اور قرعہ میں نام نکلنے کی صورت میں انعام ملتا ہے ۔

    صورتِ مسئولہ میں اگرچہ  یہ اختیار دے دیا گیا ہے کہ دونفعوں میں سے ایک حاصل کرنا ہے یا دونوں۔لیکن !بہر صورت نفع  ضرور حاصل ہو رہا ہے کہ بر بنائے قرض قرعہ اندازی میں نام کا شامل ہو جانا بھی قرض سے نفع حاصل کرنا ہےاورقرض کی وجہ سے  کسی بھی طرح کا مالی یاغیرمالی مشروط نفع لیناسودہے،ضروری نہیں کہ نفع مال ہی ہو  جیسا کہ فقہائے کرام نے بیان فرمایا کہ  دکاندار کو پیسے بطور قرض  اس طور پر  دینا کہ سودے میں کٹتے رہیں گے تو یہ سود ہے ،کیونکہ اس سے حفاظت کا فائدہ اٹھایا جاتا ہے  کہ  پیسے اپنے پاس رہنے کی صورت میں ان کے ضائع ہونے کا احتمال تھا ،لیکن قرض دے دینے کی صورت میں ضائع ہونے کا  احتمال جاتا رہا۔تو حفاظت کا فائدہ حاصل کرنے کی وجہ  سے یہ جائز نہیں ،اسی طرح پریمئیم پرائز بانڈ میں بھی قرعہ اندازی میں شمولیت کا نفع حاصل ہو رہا ہے، لہذاکسی صورت بھی پریمئیم پرائز بانڈ لینا یا اس پر انعام وصول کرنا ناجائز و حرام ہے ۔اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے ﴿ وَاَحَلَّ اللہُ الْبَیۡعَ وَحَرَّمَ الرِّبٰوا ﴾ترجمہ:اللہ نے خریدوفروخت کو حلال کیا اورسود کو حرام کیا ۔

 (پارہ3، سورۃ البقرہ، آیت275)

    کنز العمال میں ہے:”کل قرض جر منفعۃ فھو ربا “ ترجمہ:جو قرض کوئی نفع لائے وہ سود ہے ۔

(کنز العمال ، الکتاب الثانی ، الباب الثانی ، جلد6، صفحہ99، مطبوعہ  لاھور)

    علامہ ابن عابدین شامی علیہ الرحمۃ ارشاد فرماتے ہیں :”كل قرض جر نفعا حرام اي اذا كان مشروطا“ترجمہ:ہر وہ قرض جو مشروط نفع لائے حرام ہے ۔

 (رد المحتار مع الدرالمختار ، کتاب القرض ، جلد7 ، صفحہ413، مطبوعہ  کوئٹہ )

    اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن ارشاد فرماتے ہیں :”بر بنائے قرض کسی قسم کانفع لینا مطلقا سودوحرام ہے،حدیث میں ہے، حضورسیدعالم صلی اﷲتعالیٰ علیہ وسلم فرماتے ہیں:’’کل قرض جرمنفعۃ فھوربا ‘‘رواہ الحارث فی مسندہ عن امیرالمومنین المرتضی رضی اللہ تعالی عنہ ترجمہ:جوقرض کوئی نفع کھینچ کرلائے وہ سود ہے۔ اس کوحارث نے اپنی مسند میں حضرت علی المرتضی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کیاہے۔۔۔ یعنی اگرقرض اس شرط پردیاکہ نفع لیں گے، تووہ نفع بربنائے قرض حرام ہوا۔‘‘

(فتاوی رضویہ ، جلد25 ، صفحہ223، رضا فاؤنڈیشن ، لاھور)

    مفتی امجد علی اعظمی علیہ رحمۃ اللہ القوی ارشاد فرماتے ہیں :”قرض دیا اور ٹھہرالیا کہ جتنا دیا ہے اس سے زیادہ لے گا ،جیسا کہ آج کل سود خواروں کا قاعدہ ہے کہ روپیہ دو روپے سیکڑا ماہوار سود ٹھہرا لیتے ہیں، یہ حرام ہے، یوہیں کسی قسم کے نفع کی شرط کرے ناجائز ہے۔

(بھار شریعت  ، جلد2 ، صفحہ759، مکتبہ المدینہ ، کراچی)

    ملتقی الابحر اور مجمع الانہر میں ہے:’’ویکرہ أن یقرض بقالا درھما لیأخذ منہ أی من البقال بہ أی بالدرھم ما یحتاج من الطعام وغیرہ إلی أن یستغرقہ أی الدرھم فإنہ قرض جر نفعا وھو منھی عنہ ‘‘یعنی یہ مکروہ ہے کہ کوئی شخص سبزی فروش کوقرض دے تاکہ اس کے بدلے اس سے بقدرضرورت سبزی وغیرہ لیتا رہے حتی کہ قرض پوراہوجائے کہ یہ قرض سے نفع حاصل کرناہے،جس سے شرع نے منع فرمایاہے۔

 (مجمع الانھرفی شرح ملتقی الابحر،کتاب الکراھیۃ ،جلد2،صفحہ555،داراحیاء التراث العربی )

    صدرالشریعہ بدرالطریقہ مفتی امجدعلی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:”پنساری کو روپیہ دیتے ہیں اور یہ کہہ دیتے ہیں کہ یہ روپیہ سودے میں کٹتا رہے گا یا دیتے وقت یہ شرط نہ ہو کہ سودے میں کٹ جائے گا، مگر معلوم ہے کہ یوہیں کیا جائے گا تو اس طرح روپیہ دینا ممنوع ہے کہ اس قرض سے یہ نفع ہوا کہ اس کے پاس رہنے میں اس کے ضائع ہونے کا احتمال تھا، اب یہ احتمال جاتا رہا اور قرض سے نفع اٹھانا، ناجائز ہے۔‘‘

(بھارشریعت،جلد16،صفحہ481،مکتبۃ المدینہ،کراچی)

    ایک اورمقام پرمفتی امجدعلی اعظمی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں:”قرض دےکریہ ٹھہرالیناکہ جب تک ادانہ کرے میراکام کرناہوگا،یہ سود ہواکہ یہ کام اسی روپیہ کے نفع میں لے رہاہے اس کایہ کہناکہ سود نہ لےگا مہمل ہے ۔آخر یہ کام کس چیز کے عوض میں لیتاہے ۔“

 (فتاوی امجدیہ،جلد03،صفحہ212،دارالعلوم امجدیہ،مکتبہ رضویہ،کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم