اس شرط پر موبائل بیچنا کہ ایک ہفتے بعد واپس خرید لوں گا ، کیسا ہے؟

مجیب:مفتی علی اصغر صاحب مدظلہ العالی

فتوی نمبر: Gul-2266

تاریخ اجراء:02ذوالحجۃ الحرام1442ھ/13جولائی2021ء

دَارُالاِفْتَاء اَہْلسُنَّت

(دعوت اسلامی)

سوال

    کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارےمیں کہ میں موبائل کی خرید وفروخت کا کام کرتا ہوں۔  بعض اوقات کوئی کسٹمر آتا ہے اور مجبوری کی وجہ سے موبائل بیچتا ہے، لیکن وہ بیچنا نہیں چاہتا۔اس لیے وہ میرے ساتھ اس طرح کا معاہدہ کرتا ہے کہ آپ موبائل مجھ سے خرید کر ایک ہفتے کےلیے اپنے پاس رکھ لو۔ اگر میں ایک ہفتے تک واپس آگیا، تو کچھ اضافی رقم دے کر آپ سے موبائل واپس لے لوں گااور یہ اضافی رقم طے ہو جاتی ہے کہ دو ہزار یا تین  ہزار اضافی رقم ہوگی اور اگر نہ آیا تو آپ کی مرضی، چاہے آپ موبائل بیچیں، یا خود استعمال کریں۔ اس کے بعد دونوں فریق اس معاہدے کے پابند ہوتے ہیں، اگر بالفرض مجھے کوئی دوسرا کسٹمر آ کر دس ہزار منافع کی بھی آفر کرتا ہے، تو میں وہ قبول نہیں کر سکتا ، بلکہ موبائل کےمالک کو ہی موبائل واپس کرنےکا پابند ہوتا ہوں اور اس سے نفع بھی وہی لوں گا جو ہمارا آپس میں طے ہو چکا ہو۔ مثال کے طور پر میں نے اس سے موبائل پچیس ہزار کا لیا ہو تو ہفتے بعد اس کو اٹھائیس ہزار کا بیچ دوں گا۔میرا سوال یہ ہے کہ اس طرح کی خرید وفروخت کرنا شرعی طور پر جائز ہے یا نہیں؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

    پوچھی گئی صورت شرعی نقطہ نظرسے جائز نہیں ۔اس کی تفصیل یہ ہے کہ خرید و فروخت جائز ہونے کے لئے  ضروری ہےکہ اس میں کوئی ایسی شرط نہ رکھی جائے جو عقد کے تقاضوں کے خلاف ہو اور اس میں فروخت کنندہ  یا خریدار کا فائدہ ہو۔ بیان کردہ صورت میں اضافی رقم واپس کرنے پر موبائل واپس کرنے کی شرط عقد کے تقاضے کے خلاف ہے اور اس میں بظاہر فریقین کا فائدہ ہے۔ اس لیے یہ شرط  آپ کے عقد کو فاسد کردے گی۔اس کے جائز نہ ہونے کی دوسری وجہ یہ ہے کہ خرید و فروخت کے بعد خریدار ، خریدی گئی چیز  کا مالک ہو جاتا ہے اور اس میں ہر قسم کا تصرف کرنے کا مختار ہوتا ہے، لیکن یہاں پر خریدار کو  تصرف نہ کرنے کا پابند کیا گیا ہے، جو جائز نہیں۔

    خریدو فروخت میں شرط لگانےکا حکم بیان کرتے ہوئے فتاوی تاتارخانیہ میں ہے: ”وان کان الشرط شرطا لم یعرف ورودالشرع بجوازہ فی صورۃ وھو لیس بمتعارف، ان کان لاحد المتعاقدین فیہ منفعۃ۔۔۔فالعقد فاسد “ یعنی اگر شرط ایسی ہو جو شریعت میں جائز نہ ہو  اور نہ ہی لوگوں کے درمیان وہ معروف ہو ، اگر اس میں کسی ایک (یعنی فروخت کنندہ یا خریدار) کا فائدہ ہو، تو عقد فاسد ہوتا ہے۔

(فتاوی تاتار خانیہ، جلد8، صفحہ410، ھند)

    خرید و فروخت میں شرط لگانے کے احکام بیان کرتے ہوئے بہار شریعت میں ہے: ”شریعت میں بھی اس کا جواز نہ ہو اور مسلمانوں کاتعامل بھی نہ ہو،       وہ شرط فاسد ہے اور بیع کو فاسد بھی کر دیتی ہے۔“

 (بھار شریعت، جلد2، حصہ11،  صفحہ702،مکتبۃ المدینہ)

    بیع کا حکم بیان کرتے ہوئے تحفۃ الفقہاء میں ہے: ”واما حکم البیع فھو  ثبوت الملک  فی المبیع للمشتری وثبوت الملک فی الثمن للبائع“ یعنی بیع کا حکم یہ ہے کہ خریدی گئی چیز کا مالک خریدا ر ہو جائے اور قیمت کا مالک فروخت کنندہ ہو ۔

(تحفۃ الفقھاء، جلد2، صفحہ37، بیروت)

    بیع کا حکم بیان کرتےہوئے  بہار شریعت میں ہے: ”بیع کا حکم یہ ہے کہ مشتری مبیع کا مالک ہو جائے اور بائع ثمن کا۔“

 (بھارشریعت، جلد2، حصہ11، صفحہ617، مکتبۃ المدینہ)

وَاللہُ اَعْلَمُ  عَزَّوَجَلَّ  وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم