2 Chezain Aik Sath Bechne Par Qeemat Mein Discount Karna Kaisa ?

دو چیزیں ایک ساتھ بیچنے پر قیمت میں ڈسکاؤنٹ کرنا کیسا؟

مجیب: ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری مدنی

فتوی نمبر: Nor-12596

تاریخ اجراء: 19جمادی الاولیٰ1444 ھ/14دسمبر2022   ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ایک چیز دس روپے کی ہے لیکن زید یہ آفر دیتا ہے کہ اگر دو چیزیں ایک ساتھ خریدو گے تو قیمت بجائے 20 کے 15 روپے ہوگی، حالانکہ دونوں چیزوں کی اصل قیمت دس روپے ہے۔ تو کیا زید کا اس طرح کی آفر دے کر اپنی چیز فروخت کرنا درست ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   بیع درست واقع ہونے کےلیے دیگر شرائط کے ساتھ ساتھ مبیع (Goods)اور ثمن (Price)کی مقدار اور اوصاف کا متعین ہونا ضروری ہے۔  پوچھی گئی صورت میں مبیع اور ثمن دونوں متعین ہیں ان میں کسی قسم کا ابہام (Confusion) نہیں۔کسی اور وجہ سے کوئی شرعی خامی نہ پائی جاتی ہو تو اس طرح سودا (deal)کرنا درست ہے۔

   رہی یہ بات کہ زیددو چیزیں ایک ساتھ خریدنے کی صورت میں قیمت میں کمی کرتا ہے تو اس میں بھی شرعاً کوئی حرج نہیں، کیونکہ ہر شخص کو اپنی چیز کم یا زیادہ ریٹ میں فروخت کرنے کا مکمل اختیار ہے، شریعت میں اس کی کوئی ممانعت نہیں، بشرطیکہ سودا باہمی رضامندی سے ہو اور اس میں کسی قسم کی کوئی خلافِ شرع بات نہ پائی جائے۔

   وہ سودا جو باہمی رضامندی سے ہو، اس سے ملنے والا نفع شرعاً جائز ہے۔ چنانچہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:”﴿یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَاْكُلُوْۤا اَمْوَالَكُمْ بَیْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ اِلَّاۤ اَنْ تَكُوْنَ تِجَارَةً عَنْ تَرَاضٍ مِّنْكُمْ﴾“ترجمہ کنزالایمان:”اے ایمان والو آپس میں ایک دوسرے کے مال ناحق نہ کھاؤ مگر یہ کہ کوئی سودا تمہاری باہمی رضا مندی کا ہو۔(القرآن الکریم،پارہ05،سورۃ النساء،آیت:29)

   مبیع اور ثمن کی مقدار کا متعین ہونا بیع درست ہونے کے لیے ضروری ہے۔ جیسا کہ تنویر الابصار مع الدر المختار میں ہے: (وشرط لصحته معرفة قدر) مبيع وثمن (ووصف ثمن) كمصري أو دمشقيیعنی بیع درست ہونے کی شرط یہ ہے کہ مبیع اور ثمن کی مقدار متعین ہو اور ثمن کی صفت جیسا کہ مصری یا دمشقی وغیرہ بھی متعین ہو ۔ 

(تنویر الابصار مع الدر المختار، کتاب البیوع، ج 07، ص 47-46 ، مطبوعہ کوئٹہ)

   فتاوی امجدیہ میں ہے:” بیع میں ثمن کو معین کرنا ضروری ہے درِ مختار میں ہے: " وشرط لصحته معرفة قدر مبيع وثمن" اور جب ثمن معین کردیا جائےتو بیع چاہے نقد ہو یا ادھار سب جائز ہے۔۔۔۔ ہر شخص کو اختیار ہے کہ اپنی چیز کم یا زیادہ، جس قیمت پر مناسب جانے بیع کرے، تھوڑا نفع لے زیادہ شرع سے اس کی ممانعت نہیں۔ (فتاوٰی  امجدیہ، ج03، ص 181، مکتبہ رضویہ، کراچی، ملتقطاً)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم