مکان بیچ کراُسی میں  کرایہ پر رہنے کی شرط لگاناکیسا؟

مجیب: مولانا سرفرازاختر صاحب زید مجدہ

مصدق: مفتی فضیل صاحب مدظلہ العالی

تاریخ اجراء: ماہنامہ فیضان مدینہ ستمبر/اکتوبر 2018

دَارُالاِفْتَاء اَہْلسُنَّت

(دعوت اسلامی)

سوال

    کیا فرماتے ہیں علمائےدین و مفتیانِ شرعِ متین اس مسئلہ کے بارے میں کہ میں ایک مکان خریدنا چاہتا ہوں مگر بیچنے والے کی طرف سے یہ شرط لگائی جا رہی ہے کہ دو سال تک وہ مکان میں کرائے دار کے طور پر رہے گا۔ پوچھنا یہ ہے کہ اس شرط کے ساتھ میرا مکان خریدنا جائز ہے یا نہیں؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

    بیع میں عقد کے تقاضے کے خلاف کوئی ایسی شرط لگانا جس میں عاقدین میں سے کسی ایک، یا مبیع کا فائدہ ہو، اس شرط پر عرف بھی جاری نہ ہو اور شریعت میں اس کا جواز بھی وارد نہ ہوا ہو تو ایسی شرط مفسدِ عقد(ایگریمنٹ میں فسادلانے والی) ہوتی ہے۔ صورتِ مُسْتَفْسَرہ (پوچھی گئی صورت )میں بائع  یعنی بیچنے والے کا مکان کرایہ پر لینے کی شرط عقد کے تقاضے کے خلاف ایسی شرط ہے،جس میں بائع کا فائدہ ہے، اس پر عرف بھی جاری نہیں اور نہ ہی شریعت میں اس کا جواز آیا ہے لہٰذا اس شرط کے ساتھ بیع کرنا (بیچنا) ناجائز و فاسد ہوگا، دونوں پر لازم ہے کہ اس شرط کے ساتھ بیع سے اجتناب کریں، اگر بیع کرنی ہے تو شریعت کے مطابق بغیر کسی ناجائز شرط کے کریں،ناجائز شرط کے ساتھ بیع کرنے کی صورت میں دونوں گناہ گار ہوں گے اور اس بیع کو ختم کرنا بھی لازم ہوگا۔

وَاللہُ اَعْلَمُعَزَّوَجَلَّوَرَسُوْلُہ اَعْلَمصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم