اسکول کی پُرانی کاپیاں اورکتابیں بیچنا کیسا؟

مجیب:مفتی قاسم صاحب مدظلہ العالی

تاریخ اجراء:ماہنامہ فیضان مدینہ ربیع الاول1441ھ

دَارُالاِفْتَاء اَہْلسُنَّت

(دعوت اسلامی)

سوال

    کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرعِ متین اس بارے میں کہ بچوں کے اسکول کی جو کتابیں کاپیاں فالتو ہو جائیں، ان کو بیچنا درست ہے یا پھر جلا دیا جائے؟ یونہی عربی کاغذات کا کیا حکم ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

    عربی کاغذات اور اسکول کی جو کاپیاں کتابیں قابل انتفاع (استعمال کے لائق) نہ رہی ہوں ،  ان میں سے آیات، احادیث، اللہ عَزَّ وَجَلَّ ، فرشتوں اور انبیاء کرام کے اسمائے گرامی اور مسائلِ فقہ الگ کر کے بقیہ کو فروخت کیا جا سکتا ہے ،  ورنہ ان کاپیوں کتابوں کو کسی تھیلے وغیرہ میں بند کر کے گہرے دریا یا بیچ سمندر میں کوئی وزنی پتھر باندھ کر اس طرح ڈال دیا جائے کہ وہ پانی کی تہہ میں چلے جائیں، پھر باہر ایسی جگہ نہ آسکیں جہاں ان کی بےادبی کا احتمال ہو اور سب سے بہتر طریقہ انہیں پاک کپڑے میں لپیٹ کر زمین میں دفن کر دینا ہے۔ دفن کرنے کا طریقہ کار یہ ہے کہ یا تو ان کے لئے لحد (یعنی بغلی قبر) بنائی جائے یا صندوق نما قبر کھودیں تو چھت بنا کر مٹی ڈالی جائے،جیسے میت کےلئے قبر بنائی جاتی ہے تا کہ ان پر ڈائریکٹ مٹی نہ پہنچے۔

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم