نقد اور اُدھار کے ریٹ میں فرق رکھنا

مجیب:مفتی فضیل صاحب مدظلہ العالی

تاریخ اجراء:ماہنامہ فیضان مدینہ ربیع الثانی1441ھ

دَارُالاِفْتَاء اَہْلسُنَّت

(دعوت اسلامی)

سوال

    کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ہمارا تعلق غلّہ منڈی بصیر پور اوکاڑہ سے ہے،ہم کھاد، بیج، اسپرے وغیرہ کا کاروبار کرتےہیں۔ بعض اشیاء نقد اور بعض ادھار پر دیتے ہیں اور اس کی تعیین بھی شروع ہی میں کرلی جاتی ہے،ادھار کی قیمت نقد سے زیادہ ہوتی ہے۔ رقم کی ادائیگی کی مدت بھی شروع سے ہی طے ہوتی ہے اور رقم کی ادائیگی میں تاخیر کی صورت میں کسی طرح کا جرمانہ بھی نہیں ہوتا۔ سوال یہ ہے کہ ادھار کی صورت میں قیمت زیادہ مقرر کرنا غیر شرعی عمل تو نہیں؟ بعض لوگوں کا کہنا یہ ہے کہ ادھار میں زیادہ قیمت مقرر کرنا سُود ہے۔آپ اس معاملے میں ہماری شرعی رہنمائی فر مائیں۔

سائل:نوید احمد قادری(غلّہ منڈی ضلع اوکاڑہ، پنجاب)

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

    نقد و ادھار خرید وفروخت میں چند چیزوں کا لحاظ ضروری ہے، پہلی یہ کہ شروع ہی میں طے کر لیا جائے کہ سود ا نقد ہے یا ادھار، دوسری یہ کہ ادھار کی صورت میں ادائیگی کی مدت بھی معلوم و مقرر ہو۔ تیسری یہ کہ کوئی ناجائز شرط بھی نہ ہو مثلاً مقرّر کردہ مدت سے تاخیر کی صورت میں جرمانہ وغیرہ کی شرط نہ ہو۔ ان چیزوں کا لحاظ رکھتے ہوئے خرید و فروخت جائز ہے اور چونکہ آپ کا طریقہ کار بھی اس کے مطابق ہے لہٰذا درست ہے۔ جو لوگ اسے سُودی معاملہ کہتے ہیں وہ غلطی پر ہیں۔ ان پر لازم ہے کہ توبہ کریں کہ بغیر تحقیق کے اپنی اَٹکل سے شرعی مسئلہ بتانا ناجائز وگناہ ہے ۔

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ  وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم