Cheez Bechne Ke Baad Seller Ka Keemat Me Kami Karna Kaisa?

چیز بیچنے کے بعد سیلر کا قیمت میں کمی کرنا کیسا ؟

مجیب:ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری مدنی

فتوی نمبر:IEC-0125

تاریخ اجراء:28جمادی الاول 1445ھ/13دسمبر 2023ء

مرکزالاقتصادالاسلامی

Islamic Economics Centre (DaruliftaAhlesunnat)

(دعوت اسلامی-دارالافتاءاہلسنت)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ میں نے عبد الرحمٰن  کو 91 لاکھ روپےکی دکان بیچی ۔  30 لاکھ روپے عبد الرحمٰن نے کیش دیے ، باقی 61 لاکھ روپے کے متعلق طے یہ پایا کہ عبد الرحمٰن تین مہینے میں ادا کرے گا۔  لیکن تین مہینے بعد عبد الرحمٰن  سے 61 لاکھ روپے نہ ہوسکے جس پراس نے سودا کینسل کرنے کا کہا ۔ میں نے سودا کینسل کرنے سے منع کردیا، جس پر عبد الرحمٰن نے دکان  خریدنے کے لیےپارٹی تلاش کرنا شروع کردی اور ساتھ ہی مجھےبھی کہا کہ آپ بھی پارٹی تلاش کریں۔ میں نے بھی پارٹی تلاش کرنا شروع کردی ، سب سے زیادہ پیسے جو پارٹی دے رہی تھی  وہ 76 لاکھ روپے ہیں،عبد الرحمٰن وہ دکان اس پارٹی کو بیچنا چاہتا ہے اور ساتھ ہی مجھے کہہ رہا ہے کہ آپ مجھے پانچ لاکھ روپے کی رعایت دے دیں تاکہ میرا نقصان کچھ کم ہوجائے ۔میرے لیے اس صورت میں اسے  رعایت دیناکیسا ہے ؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   خرید وفروخت مکمل ہوجانے کے بعد بھی اگر بیچنے والا،  خریدنے والے کے لیے بیچی گئی چیز کی قیمت میں  کچھ کمی   کردے یعنی اسے رعایت دے دے یا پوری قیمت ہی معاف کردے تو شرعاً یہ جائز ہے،  اس میں کسی قسم کا کوئی حرج نہیں ہے۔ لہذا پوچھی گئی صورت میں آپ اگر عبد الرحمٰن کو دکان کی قیمت میں پانچ لاکھ روپے کی رعایت دیتے ہیں تو شرعاً یہ جائز ہے۔ پوچھی گئی صورت میں عبد الرحمٰن آپ سے دکان کا قبضہ حاصل کرے اور پھر آگے جس کو چاہے بیچے  وہ بیچ سکتا ہے ۔

   بیچنے والے کی طرف سے ثمن میں رعایت کرنا، جائز ہے جیسا کہ درمختار اور اس کے تحت  ردالمحتار میں ہے:”(و) صح (الحط منہ) ای من الثمن“ یعنی:بائع کا ثمن میں کمی کرنا ، درست ہے۔(درمختار مع ردالمحتار،جلد 5،صفحہ 154،مطبوعہ بیروت)

   اسی طرح ہدایہ میں ہے:”ويجوز للبائع ان يزيد للمشتری فی المبيع، ويجوز ان يحط عن الثمن“ یعنی: بائع کا مشتری کیلئے مبیع میں اضافہ اور ثمن میں کمی کرنا بھی جائز ہے۔(الھدایہ ،جلد3، صفحہ 59، مطبوعہ لاہور)

   خرید و فروخت ہوجانے کے بعد بائع کے مشتری کو مجلسِ بیع میں یا  مجلسِ بیع  کے بعد ثمن کےمعاف کرنے سے متعلق  اعلی حضرت امام اہلسنت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن سے فتاوی رضویہ میں سوال ہوا:” اگر ایک جائداد بیع کی جائے اور اسی مجلس خواہ دوسری مجلس میں  بائع کا ثمن مشتری کو معاف کردے تو جائز ہے یانہیں؟۔۔۔ آپ علیہ الرحمۃ نے اس سوال کا جواب دیتے ہوئے لکھا:” بیشک جائز ہے کہ بائع کوئی چیز بیچے اور اس مجلس خواہ دوسری میں  کل ثمن یا بعض مشتری کو معاف کردے اور اس معافی کے سبب وہ عقد عقد بیع ہی رہے گا اور اسی کے احکام اس پر جاری ہوں  گے ۔“( فتاوی رضویہ،جلد 17،صفحۃ 246،رضا فاؤنڈیشن لاہور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم