Chiz Khareedne Aur Qabza Karne Se Pehle Agey Bechne Ka Hukum ?

چیز پر قبضہ کیے بغیر آگے بیچنا کیسا؟

مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر: Sar-7726

تاریخ اجراء: 24   جمادی الثانی 1443ھ/28 جنوری 2022

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیافرماتےہیں علمائےدین و مفتیان شرع متین  ان مسائل کے بارے  میں کہ

    (1)مارکیٹ میں خرید و فروخت کا ایک طریقہ یہ پایا جاتا ہے کہ کوئی گاہک دکان پر آ کر کسی چیز کو خریدنا چاہتا ہے اور دکاندار کے پاس وہ مال ابھی موجود نہیں ہوتا، تو وہ گاہک کو مال کا نمونہ (Sample)دکھا کر اسے مخصوص مقدار میں وہ مال بیچ دیتا ہے اور پھر کسی دوسرے دکاندار کہ جس کے پاس وہ چیز موجود ہوتی ہے، اُسے کہہ دیتا ہے کہ میرے فلاں گاہک کو وہ چیز اتنی مقدار میں دے دو اور جب گاہک وہ چیز لے لیتا ہے ،تو پہلا دکاندار اس چیز کا ریٹ وغیرہ معلوم کر کے دوسرے دکاندار کو رقم کی ادائیگی کر دیتا ہے، یعنی پہلا دکاندار چیز خریدنے سے پہلے ہی گاہک کو بیچ چکا ہوتا ہے، کیا یہ طریقہ شرعا درست ہے؟

    (2)اور اگر اس طریقے سے چیز کو بیچ دیا جائے کہ پہلا دکاندار دوسرے سے کوئی چیز خرید لے اور اس کے بعد اپنے گاہک کو بیچے اور دوسرے دکاندار کو کہہ دے کہ میں نے آپ سے جو چیز خریدی ہے، وہ آگے بیچ دی ہے، لہذا آپ ڈائریکٹ میرے گاہک کو ہی وہ چیز ڈیلیور کر دیں، تو ایسا کرنا کیسا؟

    (3)اگر یہ طریقے درست نہیں، تو کیا انداز اختیار کیا جا سکتا ہے، جو شرعاً درست ہو؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   بیع سلم کے علاوہ کسی چیز کو خریدنے اور بیچنے میں شریعت اسلامی کا یہ قانون ہے کہ جس چیز کو بیچا جائے، وہ بیچتے وقت اُس انسان کی ملکیت میں ہو اور اگر کہیں سے چیز خرید کر آگے بیچ رہا ہے، تو منقولی یعنی ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہونے کے قابل  چیز کو خریدنے کے بعد اس پر حقیقی یا حکمی قبضہ ہونا بھی ضروری ہے۔

   لہذا اگر کسی چیز کو خریدنے سے پہلے ہی بیچ دیا جائے، تو یہ بیع ناجائز و باطل ہو گی کہ اس نے ایسی چیز کو بیچا  ،جو ابھی اس کی ملکیت میں ہی نہیں ہے اور جو چیز بیچتے وقت انسان کی ملکیت میں نہ ہو، اُسے بیچنے سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے۔اسی طرح اگر کسی منقولی یعنی ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہونے کے قابل  چیز کو خرید لیا، تو اب اگرچہ وہ خریدار اس چیز کا مالک بن جاتا ہے، مگر آگے بیچنے کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ اس پر حقیقی یا حکمی قبضہ کر لے، لہذا اگر چیز کو خرید کر اس پر قبضہ کیے بغیر ہی آگے بیچ دیا جائے، تو یہ بیع بھی ناجائز و فاسد ہو گی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس چیز کو بیچنے سے منع فرمایا، جس پر قبضہ نہ کیا ہو۔

   اس تمہید کے بعد پوچھی گئی صورتوں کا جواب یہ ہے کہ سوال میں بیان کردہ دونوں طریقوں کے مطابق کسی چیز کو بیچنا شرعاً ناجائز و گناہ ہے کہ پہلی صورت میں یہ ایسی چیز کو بیچنا ہے، جو ابھی اس کی ملکیت میں نہیں ہے اور ایسی بیع ناجائز و باطل ہےاور دوسری صورت میں یہ ایسی چیز کو بیچنا ہے کہ جسے خریدنے کے بعد اس پر قبضہ نہیں کیا گیا اوریہ بیع بھی ناجائز و فاسد ہے۔

   اس کا درست طریقہ یہ ہو سکتا ہے کہ اگر دکاندار کے پاس مال موجود نہیں ہے، تو وہ اپنے گاہک کو بیچنے سے پہلے دوسرے دکاندار سے وہ چیز خرید لے اور پھر اس پر قبضہ کرنے کے بعد اسے اپنے گاہک کو بیچ دے اور قبضہ کی صورت یہ ہو سکتی ہے کہ وہ مال خرید کر اپنی دکان پر ہی منگوا لے اور پھر گاہک کو بیچ دے اور اگر دوسری دکان سے ہی گاہک کو ڈیلیوری کرنی ہے، تو اس چیز کو خرید کر، دوسری دکان پر خود جا کر یا اپنے کسی وکیل (بیچنے والے کے علاوہ)کے ذریعے سے قبضہ کر لے اور پھر اس کے بعد وہ چیز گاہک کو بیچ کر اس کے سپرد کر دے۔

   جو چیز بیچنے والے کی ملکیت میں نہ ہو، اسے بیچنے کی ممانعت کے بارے میں حدیث پاک میں ہے:عن حكيم بن حزام قال: سألت النبي صلى اللہ عليه وسلم فقلت: يا رسول اللہ، يأتيني الرجل، فيسألني البيع ليس عندي أبيعه منه، ثم أبتاعه له من السوق، قال: لا تبع ما ليس عندك“ترجمہ: حضرت حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا کہ میرے پاس ایک شخص آ کر مجھے اس چیز کو بیچنے کا کہتا ہے، جو میرے پاس نہیں ہوتی، تو میں اسے بیچ دیتا ہوں اور پھر اس کے لیے بازار سے خرید لیتا ہوں، تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو چیز تمہارے پاس نہ ہو، اُسے فروخت نہ کرو۔(سنن نسائی، کتاب البیوع، باب بیع ما لیس عند البائع، جلد 2، صفحہ 225، مطبوعہ کراچی)

   بغیر ملکیت کے چیز بیچنے کے بارے میں بدائع الصنائع میں ہے:”شرط انعقاد البيع للبائع أن يكون مملوكا للبائع عند البيع فإن لم يكن لا ينعقد، وإن ملكه بعد ذلك بوجه من الوجوه إلا السلم خاصة، وهذا بيع ما ليس عنده ، ونهى رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم عن بيع ما ليس عند الإنسان، ورخص في السلم۔۔۔ والمراد منه بيع ما ليس عنده ملكا؛ لأن قصة الحديث تدل عليه فإنه روي أن حكيم بن حزام كان يبيع الناس أشياء لا يملكها، ويأخذ الثمن منهم ثم يدخل السوق فيشتري، ويسلم إليهم فبلغ ذلك رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم فقال لا تبع ما ليس عندك“ترجمہ: بیع کے منعقد ہونے کی ایک شرط یہ ہے کہ وہ چیز بائع کی ملکیت میں ہو، اگر اس کی ملکیت میں نہ ہو، تو بیع منعقد نہیں ہو گی، اگرچہ بعد میں کسی طریقے سے وہ اس کا مالک ہو جائے، سوائے بیع سلم کے اور یہ اس چیز کو بیچنا ہے، جو اس کے پاس نہیں ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس چیز کو بیچنے سے منع فرمایا ہے، جو انسان کے پاس نہ ہو اور بیع سلم میں رخصت دی ہے۔ (اس چیز کو بیچنا، جو اس کے پاس نہیں) اس سے مراد اس چیز کو بیچنا ہے، جو اس کی ملکیت میں نہ ہو، کیونکہ حدیث پاک کا واقعہ اسی پر دلالت کرتا ہے کہ جس میں حضرت حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ لوگوں کو وہ اشیاء بیچ دیتے تھے، جو ان کی ملکیت میں نہیں ہوتیں تھیں اور ان سے ثمن لے لیتے اور پھر بازار جا کر وہ چیز خریدتے اور ان کے سپرد کر دیتے، تو جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس معاملے کی خبر پہنچی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جو چیز تمہارے پاس نہ ہو، اُسے فروخت نہ کرو۔ (بدائع الصنائع، کتاب البیوع، جلد 4، صفحہ 340، مطبوعہ کوئٹہ)

   اسی بارے میں مبسوط سرخسی میں ہے:”بيع ما ليس عند الإنسان أن المراد إذا باعه ثم اشتراه وأراد تسليمه“ترجمہ: اس چیز کو بیچنا، جو انسان کے پاس نہیں ہے، اس سے مراد یہ ہے کہ وہ کسی چیز کو بیچ دے اور پھر اسے خریدے اور یہ ارادہ ہو کہ اسے (خود خرید کر اپنے گاہک کے)سپرد کر دے گا۔ (مبسوط سرخسی، باب الاستبراء، جلد 13، صفحہ 183، مطبوعہ کوئٹہ)

   جو چیز بیچنے والے کی ملکیت میں نہیں، اس کی بیع باطل ہے، چنانچہ علامہ ابن عابدین شامی علیہ الرحمۃ ارشاد فرماتے ہیں:”بيع ما ليس في ملكه باطل كما تقدم؛ لأنه بيع المعدوم، والمعدوم ليس بمال فينبغي أن يكون بيعه باطلا“ترجمہ: جو چیز اس کی ملکیت میں نہ ہو، اس کی بیع باطل ہے، جیسا کہ گزرا، کیونکہ یہ معدوم کی بیع ہے اور معدوم مال نہیں ہے، پس چاہیئے کہ اس کی بیع باطل ہو۔(رد المحتار مع الدرالمختار ، کتاب البیوع، جلد 7، صفحہ 248، مطبوعہ کوئٹہ)

   اسی بارے میں اعلی حضرت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن ارشاد فرماتے ہیں:”جو چیز ہنوز (ابھی)اپنی مِلک ہی میں نہیں، بیع سلم کے سوا اس کا بیچنا باطل ہے۔“          (فتاوی رضویہ، جلد 17، صفحہ 155، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

   جو چیز خرید لی ہو، اس پر قبضہ کیے بغیر آگے فروخت کرنے کے بارے میں صحیح مسلم میں ہے:”قال رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم: من ابتاع طعاما فلا يبعه حتى يقبضه، قال ابن عباس: وأحسب كل شيء بمنزلة الطعام“ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو شخص طعام (غلہ)خریدے، تو قبضہ کرنے سے پہلے اس کو آگے نہ بیچے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میرا خیال ہے کہ تمام اشیاء طعام (غلہ)ہی کی طرح ہیں(یعنی باقی چیزوں کا بھی یہی حکم ہے)۔(صحیح مسلم، کتاب البیوع، باب بطلان البیع قبل القبض، جلد 2، صفحہ 5، مطبوعہ کراچی)

   اس حدیث پاک کو نقل کرنے کے بعد علامہ سرخسی علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں:”وكذلك ما سوى الطعام من المنقولات لا يجوز بيعه قبل القبض عندنا“ترجمہ: ہمارے نزدیک کھانے کے علاوہ دیگر منقولی یعنی ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہونے کے قابل  چیزوں کا بھی یہی حکم ہے کہ قبضے سے پہلے ان کی بیع جائز نہیں ہے۔(المبسوط السرخسی، کتاب البیوع، باب البیوع الفاسدۃ، جلد 13، صفحہ 10، مطبوعہ کوئٹہ)

   اسی بارے میں ایک اور حدیث پاک میں ہے:”نهى رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم ۔۔۔عن بيع ما لم يقبض“ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس چیز کو بیچنے سے منع فرمایا، جس پر قبضہ نہ کیا ہو۔ (المعجم الاوسط، باب الالف، جلد 2، صفحہ 153، مطبوعہ قاھرۃ)

   بحر الرائق اور بدائع الصنائع میں ہے، واللفظ للثانی:’’ (ومنها) القبض في بيع المشتري المنقول فلا يصح بيعه قبل القبض؛ لما روي أن النبي صلى اللہ عليه وسلم نهى عن بيع ما لم يقبض ، والنهي يوجب فساد المنهي“ترجمہ: خریدار کا منقولی یعنی ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہونے کے قابل  چیز کو آگے بیچنے کے لیے اس پر قبضہ کرنا بھی بیع کے صحیح ہونے کی شرائط میں سے ایک شرط ہے، لہذا قبضہ سے پہلے اس کو آگے بیچنا درست نہیں، کیونکہ روایت کیا گیا کہ جس چیز پر قبضہ نہ کیا گیا ہو، اس کو بیچنے سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے اور منع فرمانا اس چیز کے فاسد ہونے کو لازم کر دیتا ہے، جس سے منع کیا گیا ہو۔    (بدائع الصنائع، کتاب البیوع، جلد 4، صفحہ 394، مطبوعہ کوئٹہ)

   محیط برہانی اور بنایہ شرح ہدایہ میں ہے:واللفظ للآخر:’’ بيع المنقول قبل القبض لا يجوز بالإجماع“ترجمہ: منقولی یعنی ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہونے کے قابل  چیز کو قبضہ سے پہلے بیچنا، بالاجماع ناجائز ہے۔ (البنایہ شرح الھدایہ، کتاب البیوع، باب الاقالۃ، جلد 7، صفحہ 298، مطبوعہ کوئٹہ)

   وکیل کا قبضہ موکل کا قبضہ ہوتا ہے، لہذا وکیل کے قبضہ کر لینے کے بعد سامان کو آگے بیچا جا سکتا ہے، چنانچہ مبسوط سرخسی میں ہے:”قبض الوكيل في حق الموكل كقبضه بنفسه“ترجمہ: موکل کے حق میں وکیل کا قبضہ خود موکل کے قبضہ کی طرح ہے۔(المبسوط السرخسی، باب الوکالۃ، جلد 19، صفحہ 176، مطبوعہ کوئٹہ)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم