Chiz Par Qabza Kiye Baghir Agey Bech Dena Online Khareedo Farokht Ki Aik Sorat

چیز پر قبضہ کیے بغیر آگے بیچ دینا ، آن لائن خرید و فروخت کی ایک صورت

مجیب:ابوصدیق محمد ابوبکر عطاری

مصدق:مفتی ابو الحسن محمد ہاشم خان عطاری

فتوی نمبر:Grw-0019

تاریخ اجراء:13رمضان المبارک 1442ھ/26اپریل2021ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ ہم آن لائن اسٹور بناتے ہیں ،جس کا ماہانہ کرایہ بھی ہم دیتے ہیں ، ہم اپنے آن لائن اسٹور پر کسی ویب سائٹ سے کوئی پروڈکٹ تلاش کر کے لگاتے ہیں ، اس میں قیمت بھی لکھی ہوتی ہے اور جس کسٹمر کو وہ چیز پسند آتی ہے، وہ خریدنا چاہتا ہے، تو اس میں خریدنے والے آپشن کو کلک کرتا ہے، وہاں خریدنے کی ہیڈنگ بھی موجود ہوتی ہے،پھر اس کے بعد بسا اوقات بعض چیزوں کی قیمت کی بارگیننگ کر کے ریٹ فائنل کر لیتے ہیں،تو ہم بیچنے کےآپشن پر کلک کر کے اسے بیچ دیتے ہیں اور اس سے رقم وصول کر لیتے ہیں ، اس کے بعد ہم ویب سائٹ والوں سے آن لائن خرید کر قیمت کی ادائیگی کر دیتے ہیں اور انہیں کسٹمر کا ایڈریس دے دیتے ہیں ،وہ کسٹمر کو چیز پہنچا دیتے ہیں ۔ معلوم یہ کرنا ہے کہ خریدو فروخت کا یہ طریقہ شرعا جائز ہے یا نہیں ؟ جبکہ کسٹمر کو بیچنے کے بعد ہم خود خریدتے ہیں اورپھر چیز بھی ہمارے قبضے میں نہیں آتی۔ واضح رہے کہ اس میں کمیشن والا معاملہ نہیں ہوتا، بلکہ ہم کسٹمر کو باقاعدہ بیچتے ہیں، پھر بعد میں خود خریدتے ہیں ۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   شریعت مبارکہ کا قانون ہے کہ خریدنے کے بعد جس چیز کو فروخت کرنا ہو،تو پہلےخرید کر خود یا اپنے وکیل کے ذریعے اس پرحقیقی یا حکمی قبضہ کر لے پھر فروخت کرے ،اگر خریدنے سے پہلے ہی بیچ دیا تو بیع ناجائز و باطل ہوگی کہ ایسی چیز کو بیچا جو ابھی اس کی ملکیت میں نہیں ہے ،اسی طرح منقولی چیز کو خریدنے کے بعد قبضہ کرنے سے پہلے بیچنا بھی ناجائز ہوتا ہے۔لہذا اس اصول کی روشنی میں  پوچھی گئی صورت میں خریدو فروخت کا یہ طریقہ ناجائز و باطل ہے ، کہ اس میں بھی چیز کو خرید کر مالک بننے سے پہلے ہی بیچ د یا جاتا ہے ۔جبکہ شرعی طور پر خریدنے سے پہلے بیچنا جائز نہیں بلکہ منقولی یا ایسی غیر منقولی جس کا ہلاک ہونا نادر نہ ہو ،کو خریدنے کے بعد خود یا اپنے وکیل کے ذریعے قبضہ کرنے سے پہلے بیچنا بھی جائز نہیں ہوتا ۔

   حدیث مبارکہ میں ہے ، حضرت حکیم بن حزام رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں،میں نے رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم سے پوچھا:’’قلت: يا رسول الله، يأتيني الرجل، فيسألني البيع ليس عندي أبيعه منه، ثم أبتاعه له من السوق، قال: ’’لا تبع ما ليس عندك‘‘یعنی : میں نے عرض کی یا رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم میرے پاس ایک شخص آ کر ، اس چیز کو بیچنے کا کہتا ہے جو میرے پاس نہیں ہوتی، تو میں اس کو بیچ دیتا ہو ں، پھر میں اس کے لیے بازار سے خرید لیتا ہوں، تو نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ و الہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جو چیز تیرے پاس نہیں اس کو نہ بیچ ۔) سنن النسائی ،جلد7،صفحہ289،مكتبۃ المطبوعات الإسلامية،حلب(

   بدائع الصنائع میں ہے :’’ شرط انعقاد البيع للبائع أن يكون مملوكا للبائع عند البیع فإن لم يكن لا ينعقد، وإن ملكه بعد ذلك بوجه من الوجوه إلا السلم خاصة، وهذا بيع ما ليس عنده ، ونهى رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم عن بيع ما ليس عند الإنسان، ورخص في السلم ،۔۔ والمراد منه بيع ما ليس عنده ملكا؛ لأن قصة الحديث تدل عليه فإنه روي أن حكيم بن حزام كان يبيع الناس أشياء لا يملكها، ويأخذ الثمن منهم ثم يدخل السوق فيشتري، ويسلم إليهم فبلغ ذلك رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم ، فقال لا تبع ما ليس عندك ‘‘ یعنی بیع منعقد ہونے کی شرط یہ ہے کہ چیز بیع کے وقت بائع کی ملکیت میں ہو،اگر اس کی ملکیت میں نہ ہو تو بیع منعقد نہیں ہوگی ،اگرچہ بعد میں کسی طریقے سے اس کا مالک ہو جائے ،سوائے سلم کے ، اوریہ اس چیز کو بیچنا ہے جو اس کے پاس نہیں ہے اور نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے اس چیز کو بیچنے سے منع فرمایا ہے، جو انسان کے پاس نہ ہو اور سلم میں رخصت دی ہے ، بیچنا اس کو جو اس کے پاس نہیں سے ،مراد ملک ہے کیونکہ حدیث کا قصہ اسی پر دلالت کرتا ہے ، حکیم بن حزام رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کیا گیا ہے کہ وہ لوگوں کو وہ اشیا بیچ دیتے تھے جو ان کی ملک میں نہ ہوتیں اور ان سے ثمن لے لیتے پھر بازار جاتے اور وہ چیز خرید کر ان کے سپرد کر دیتے ، نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ و سلم کو اس معاملے کی جب خبر پہنچی، تو آپ نے فرمایا جو چیز تیرے پاس نہیں ہوتی اس کو نہ بیچ۔ (بدائع الصنائع، جلد5،صفحہ146،147، دار الکتب العلمیۃ،بیروت)

   مسلم شریف میں ہے :’’قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم (من ابتاع طعاما فلا یبعہ حتی یقبضہ)قال ابن عباس وأحسب کل شیء بمنزلۃ الطعام ۔‘‘ترجمہ:رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشادفرمایاکہ جو شخص غلہ خریدے تو اسے آگے نہ بیچے جب تک اس پرقبضہ نہ کرلے۔ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں : میں اس معاملے میں ہر چیز کوغلےکے درجہ میں شمار کرتا ہوں۔(صحیح مسلم،کتاب البیوع،جلد03،صفحہ1159،دار إحیاء التراث العربی،بیروت)

   ایک دوسری حدیث میں ہے:’’ نھانا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم أن نبیعہ حتی ننقلہ من مکانہ ‘‘یعنی :صحابہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ہمیں چیزکوخریدنے کے بعدجب تک اسے وہاں سے اٹھانہ لیں (یعنی قبضہ نہ کرلیں)آگے بیچنے سے منع فرمایا۔(صحیح مسلم،کتاب البیوع، جلد03،صفحہ1160،دار إحیاء التراث العربی ،بیروت)

   محیط برہانی اور بنایہ شرح ہدایہ میں ہے ،و النظم للاخر:’’بیع المنقول قبل القبض لایجوز بالإجماع‘‘ ترجمہ:منقولی چیزکی قبضہ سے پہلے بیع بالاجماع ناجائز ہے ۔(البنایۃ شرح الھدایۃ،کتاب البیوع ،جلد8،صفحہ299،دار الکتب العلمیۃ ،بیروت)

   اشکال:ہمارے ہاں عموما خریدو فروخت کے الفاظ استعمال نہیں کیے جاتے ،بلکہ بطور تعاطی بیع ہو رہی ہوتی ہے، توآن لائن خرید و فروخت  کے اس طریقے میں بطور تعاطی بیع درست نہیں قرار دے سکتے ؟

   جواب: اس طریقے میں بیچنے والا اپنے آن لائن اسٹورپر چیز قیمت وغیر ہ کے ساتھ لگا دیتا ہے، تو یہ اس کی طرف سے ایجاب کی پیشکش ہوتی ہے ،پھر خریدنے والا جب خریدنے کے بٹن کو کلک کرتا ( جس پر واضح خریدنے کی ہیڈنگ بھی ہوتی)ہےتو یہ اس کی طرف سے ایجاب قرار پاتا ہے ،پھر بیچنے والا جب بیچنے والے بٹن کو کلک کر دیتا ہے(سائل کی وضاحت کے مطابق اس میں بھی بیچنے کی ہیڈنگ موجود ہوتی ہے) تو یہ ایجاب کا قبول ہوتا ہے اور سودا مکمل قرار پاتا ہے، لہذا ہماری اس صورت میں تحریرا ًایجاب و قبول کے ذریعے ہی بیع ہو رہی ہوتی ہے، لیکن بالفرض ایجاب و قبول سے بیع نہ مانی جائے، بلکہ اسے بیع تعاطی کے طور پر دیکھا جائے ،تو بھی معاملہ ناجائز رہےگا کہ اس میں بھی وقت بیع ، مبیع بائع کی ملک میں ہونا شرط ہے، بلکہ من جانب واحد سے تعاطی ہو کہ بیع کے طور پر ثمن دے دیا ہے، مگر چیز پر بعد میں قبضہ کرے گا ،تو اس میں  مزید یہ بھی شرط ہوتی ہے کہ  چیز بائع کے پاس موجود و معلوم ہو ۔ رد المحتار میں ہے :’’ المراد فی صورۃ دفع الثمن فقط ان المبیع موجود معلوم ،لکن المشتری دفع ثمنہ و لم یقبضہ‘‘ یعنی صرف ثمن دے دینے کی صورت میں بیع تعاطی ہوگی جبکہ مبیع موجود و معلوم ہو ،لیکن مشتری نے ثمن دیا اور چیز پر قبضہ نہیں کیا ۔ (رد المحتار علی الدرالمختار،جلد7،صفحہ26،مطبوعہ لاھور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم