Darzi Ka Istisna Ke Tor Par Suit Banakar Dena

درزی کا استصناع کے طور پر سوٹ بناکر دینا

مجیب: ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری

تاریخ اجراء: ماہنامہ فیضانِ مدینہ فروری 2024ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ   عام طور پر درزی صرف سلائی کرتے ہیں اور اسی کی اجرت لیتے ہیں جبکہ بعض درزی سلائی کرنے کے ساتھ ساتھ کپڑا  بھی اپنی دکان پر رکھتے ہیں،درزی  کسٹمر کو کپڑادکھاتے ہیں جس کسٹمر کو کپڑا پسند آجائے اور وہ سلائی بھی انہی سے کروانا چاہے تو خصوصی رعایت دینے کے لیے درزی یہ آپشن دیتے ہیں کہ آپ کپڑا تھان سے نہ کٹوائیں بلکہ ہمیں اسی کپڑے سے سوٹ بنانے کا آرڈر دے دیں ہم آپ کوآپ کی پسند کے مطابق تیار کر کے دے دیں گےکپڑے سمیت مکمل جوڑے  کے ریٹ یہ ہوں گے۔کیا  شرعی اعتبار سے درزی اور کسٹمر کی یہ  ڈیل درست ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   عام طورپر  سلائی کروانے والا شخص خودہی درزی کو کپڑالا کردیتا ہے اور درزی  سی کر دیتا اوراپنی اجرت وصول کرتا ہے۔ ہاں اگر کوئی  سوال میں ذکر کردہ تفصیل  کے مطابق عقد کرنا چاہے تو یہ عقد بیع استصناع کے طور پر درست ہوسکتا ہے کیونکہ بیع استصناع میں پروڈکٹ بنانے کی ذمہ داری اور  اس پروڈکٹ میں لگنے والی اشیاء صانع کی جانب سے ہوتی ہیں لہٰذا جوڑا بننے میں  کپڑا کیسا لگے گا، سلائی کس انداز کی ہوگی، ڈیزائن کیسا بنے گا اور دیگر وہ امور جو فریقین کے لئے تنازع کا باعث بن سکتے ہیں ان سب کو اور مکمل جوڑے کی قیمت کو واضح طور پر بیان کر دیا جائے تویہ عقد بیع استصناع کے طور پر درست ہے ۔

درر الحکام شرح مجلۃ الاحکام میں ہے:”أن يكون العمل والعين من الصانع وإلا فإذا كانت العين من المستصنع فهو عقد إجارة مثال: إذا قاول شخص خياطا على صنع جبة، وقماشها وكل لوازمها من الخياط فيكون قد استصنعه تلك الجبة وذلك هو الذي يدعى بالاستصناع۔ أما لو كان القماش من المستصنع و قاوله على صنعها فقط فيكون قد استأجره والعقد حينئذ عقد إجارة لا عقد استصناع“ یعنی: عمل اور اشیاء صانع کی جانب سے ہوں تو (یہ عقد استصناع ہے) اور اگر عین مستصنع کی جانب سےہو تو یہ عقد اجارہ ہے۔ مثال: ایک شخص نے درزی سے جبہ سینے پر معاہدہ کیا جس میں کپڑا اور تمام لوازمات درزی کی جانب سے ہوں گے تو یہ اس جبہ پر استصناع ہے۔ بہرحال اگر کپڑا مستصنع کی جانب سے ہو،اور معاہدہ فقط اس کے سلائی کرنے پر ہو تو یہ اجارہ ہے استصناع نہیں ہے۔ (درر الحکام شرح مجلۃ الاحکام،1/115)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم