Dosre City Mein Mojood Saman Par Qabza Kis Tarah Ho Sakta Hai?

دوسرے شہر میں موجود سامان پر قبضہ کس طرح ہو سکتا ہے ؟

مجیب:ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری مدنی

فتوی نمبر:IEC-0070

تاریخ اجراء:07ربیع الاول 1445ھ/25ستمبر 2023ء

مرکزالاقتصادالاسلامی

Islamic Economics Centre (DaruliftaAhlesunnat)

(دعوت اسلامی-دارالافتاءاہلسنت)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ میں نے ایک شخص سے فون کال پردال کی بوریاں  خریدیں اور اسے بینک کے ذریعے پیمنٹ کردی۔جس پر بائع (Seller) نے مجھے کہا کہ  گودام  (Warehouse)میں آپ کی دال الگ سے رکھی ہوئی ہے،  جب آپ کا دل چاہے گاڑی لگا کر اٹھا لیجیے گا۔کیا بائع  کےاس انداز  سے تخلیہ کر دینے سے میرا قبضہ ہوگیا یا مجھے اس پر الگ سے قبضہ کرنا ہوگا؟جبکہ میں نے  خود یا اپنے نمائندے کے ذریعے اس پر قبضہ نہیں کیا۔  کیا میں اسی کنڈیشن میں اس دال کو آگے بیچ سکتا ہوں؟

سائل:فیاض میمن

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   منقولی (Movable) چیز خرید کر قبضہ کرنے سے پہلے آگے فروخت کرنا، ناجائزو گنا ہ ہے۔ پوچھی گئی صورت میں صرف یہ کہہ دینے  سے کہ ”گودام میں آپ کی دال الگ سے رکھی ہوئی ہے،  جب آپ کا دل چاہےگاڑی لگا کر اٹھا لیجیے گا “نہ حقیقتاً قبضہ ہوا نہ حکما ً۔

   تفصیل اس مسئلے کی یہ ہےکہ کسی بھی چیز کو خرید کر آگے بیچنے سے پہلے حقیقۃً یا حکماًقبضہ   ضروری ہے۔ حقیقتاً قبضہ یہ ہے کہ باقاعدہ فزیکلی   (Physically) اس چیز پر قبضہ کرلے اور حکماً قبضہ یہ ہےکہ بائع  (Seller)، مبیع (Sold Item) اور مشتری (Buyer) کے درمیان اس طرح تخلیہ کر دے کہ(1) اگرمشتری  قبضہ کرنا چاہے تو کر سکے ،  قبضہ سے کوئی چیز مانع (Preventing) نہ ہو ،(2)مبیع اور مشتری کے درمیان کوئی چیز حائل (Obstacle) بھی نہ ہواور(3) مشتری مبیع سے اس قدر قریب ہوکہ ہاتھ بڑھائے تو اس چیز تک پہنچ جائے ، اٹھ کر اس کے پاس جانے کی حاجت نہ ہو۔ عرفاً بعض ایسی صورتیں بھی ہیں جہاں خریدار چیز کے پا س موجود ہو اور  چیز اتنی دور ہو کہ ہاتھ بڑھانے سے ہاتھ نہ پہنچے لیکن  چیز نظر کے سامنے ہو اور قبضہ کرنے اور چیز لے جانے پر قدرت ہو  تو بھی قبضہ حکمی ثابت ہوگا۔

   پوچھی گئی صورت میں فقط  فون پر یہ کہنا کہ ” گودام میں آپ کی دال الگ سے رکھی ہوئی ہے،  جب آپ کا دلچاہے گاڑی لگا کر اٹھا لیجیے گا“قبضے کے لئے کافی نہیں ہے ،  ان الفاظ سے  آپ کا مبیع پر نہ حقیقۃً قبضہ ہوا نہ ہی حکماً قبضہ ہوالہٰذا آپ اگراس دال کو بیچنا چاہتے ہیں تو   اس دال  پرخود قبضہ کریں یا اپنے وکیل کے ذریعے سے قبضہ کروائیں ، بغیر قبضہ کیے آگے بیچنا ناجائز وگنا ہ ہے ۔ اگر بیچیں گے تو بیع فاسد ہوگی اور فریقین پر سودے کوفسخ کرنا واجب ہوگا۔

   قبضہ کرنے سے متعلق فتاوی قاضی خان اور فتاوی عالمگیری میں ہے:”ولو اشترى ثوبا وأمره البائع بقبضه فلم يقبضه حتى غصبه إنسان فإن كان حين أمره البائع بالقبض أمكنه أن يمد يده ويقبض من غير قيام صح التسليم وإلا فلا“ یعنی: اگر کسی نے کپڑا خریدا اور بائع نے اس کوقبضہ کرنے کا کہہ دیا۔ خریدار  ابھی  قبضہ نہیں  کر  پایاتھا کہ  کسی نے وہ کپڑا غصب کرلیا توجس وقت بائع نے مشتری کو قبضہ کرنے کا حکم دیا تھا اگر اس وقت مشتری  کے لیے بغیر اٹھے ہاتھ بڑھا کراس کپڑے پر قبضہ کرنا ممکن تھا تو تسلیم صحیح ہےاور اگر اٹھے بغیر قبضہ کرنے پرقدرت نہ تھی تو تسلیم صحیح نہیں۔(فتاوی قاضی خان ،جلد02،صفحہ145،مطبوعہ بیروت، فتاوی عالمگیری،جلد03،صفحہ17،مطبوعہ کوئٹہ)

   اسی طرح رد المحتار میں ہے: ”لواشتری ثوبا فامرہ البائع بقبضہ فلم یقبضہ حتی اخذہ انسان ان کان حین امرہ بقبضہ امکنہ من غیر قیام صح التسلیم وان کان لایمکنہ الابقیام لایصح “ ترجمہ: اگر کسی نے کپڑا خریدا اور بائع نے اس کوقبضہ کرنے کا کہا، ابھی وہ قبضہ  نہیں کر پایاتھا کہ دوسر ے شخص نے وہ کپڑا پکڑ لیا، اگر قبضہ کرنے کا کہنے کے وقت مشتری  کو اس کپڑے پر قبضہ کرنے  کے لئے اٹھے بغیر  ہاتھ میں لینے پر قدرت تھی تو تسلیم  صحیح ہےاور اگر اٹھے بغیرقبضہ کرنے پرقدرت نہ تھی تو تسلیم صحیح نہیں۔(ردالمحتار،  کتاب البیوع ،جلد07،صفحہ96،مطبوعہ کوئٹہ)

   فتاوی قاضی خان ،فتاوی بزازیہ، مجمع الضمانات اور غمز عیون البصائز میں ہے جبکہ فتاوی قاضی خان کے الفاظ یہ ہیں :”قال أبو حنيفة رحمه الله تعالى التخلية بين المبيع والمشتري تكون قبضاً بشرائط ثلاثة أحدها أن يقول البائع خليت بينك وبين المبيع فاقبضه ويقول المشتري قد قبضت والثاني أن يكون المبيع بحضرة المشتري بحيث يصل إلى أخذه من غير مانع والثالث أن يكون المبيع مفرزاً غير مشغول بحق الغير۔۔۔ واختلف أبو يوسف ومحمد رحمهما الله تعالى في التخلية في دار البائع قال أبو يوسف رحمه الله تعالى لا يكون تخلية وقال محمد رحمه الله تعالى يكون تخلية“یعنی:امام اعظم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا:” مبیع اور مشتری کے درمیان تخلیہ قبضہ بنتا ہےچند شرائط کے ساتھ۔  ایک یہ ہےکہ بائع یوں کہے میں نے تیرے اور مبیع کے درمیان تخلیہ کیاتو اس پر قبضہ کرلے اور مشتری کہے کہ میں نے قبضہ کیا۔  دوسری شرط یہ ہے کہ مبیع مشتری کےسامنے اس طرح ہوکہ  کسی طرح کی رکاوٹ کے بغیر  اس کوپکڑ سکے۔  تیسری شرط یہ ہےکہ مبیع علیحدہ   ہو اور کسی کے حق میں مشغول نہ ہو۔۔۔۔ امام ابویوسف اور امام محمد رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہما نے بائع کے گھر میں تخلیہ ہونے کی صورت میں اختلاف کیا ۔ امام ابو یوسف رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ اس صورت میں تخلیہ نہیں ہوگا جبکہ امام محمد رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ تخلیہ ہوجائے گا۔ (فتاوی قاضی خان ،جلد02،صفحہ141،مطبوعہ بیروت)

   صدر الشریعہ بدر الطریقہ مفتی امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ بہار شریعت میں لکھتے ہیں: ”بائع نے مبیع اور مشتری کے درمیان تخلیہ کردیا  کہ اگر وہ قبضہ کرنا چاہے کرسکے اور قبضہ سے کوئی چیز مانع نہ ہواور مبیع و مشتری کے درمیان کوئی شے حائل بھی نہ ہو تو مبیع پرقبضہ ہوگیا اسی طرح مشتری نے اگر ثمن وبائع میں تخلیہ کردیا تو بائع کو ثمن کی تسلیم کردی۔“ (بہار شریعت ،جلد02،صفحہ 641،مطبوعہ مکتبۃ المدینہ)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم