Installments Par Liya Hua Plot Asal Malik Ko Wapas Bechna Kaisa ?

قسطوں(Installments) پر لیا ہوا پلاٹ اصل مالک کو واپس بیچنا کیسا؟

مجیب: مفتی ابو محمد علی اصغر عطاری مدنی

فتوی نمبر: 11923- Nor

تاریخ اجراء:       15 جمادی الاولی 1443 ھ/20 دسمبر   2021 ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین  اس مسئلے کے بارے میں  کہ قسطوں پر خریدا ہوا پلاٹ مہنگا ہونے پر اصل مالک کو بیچنا کیسا؟ تمام قسطوں کی ادائیگی سے قبل اور بعد دونوں صورتوں کی وضاحت فرما دیجئے۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   پوچھی گئی صورت میں قسطوں میں خریدا گیا  پلاٹ قیمت   بڑھنے پر اسی شخص کو بیچنا جائز ہے، خواہ مکمل اقساط ادا کی ہوں یا کچھ اقساط باقی ہوں۔

   مسئلے کی تفصیل یہ ہے کہ کوئی چیز ادھار خرید کر پوری رقم ادا کرنے سے پہلے اسی شخص کو واپس بیچی جائے،تو ضروری ہے کہ پہلی بار جتنے میں خریدی تھی ، اس سے کم قیمت میں نہ بیچیں ۔جتنے میں پہلی بار خریدی تھی ، اسی قیمت میں یا اس  سے زائد قیمت میں اسی شخص کو بیچنا بلا کراہت جائز ہے ، اس معاملے میں مکمل اقساط ادا کرنے سے پہلے اور بعد ، دونوں کا حکم ایک ہی ہے، لہذا سوال میں مذکور صورت حال میں چونکہ  پلاٹ پہلی بار سے زیادہ قیمت میں فروخت کیا جا رہا ہے ، اس لیے یہ معاملہ جائز ہے ، اس میں کوئی حرج نہیں۔

   ہدایہ و  فتح القدیر میں ہے:” ( قوله ومن اشترى جارية بألف درهم حالة أو نسيئة فقبضها ثم باعها من البائع قبل نقد الثمن ) بمثل أو أكثر جاز ، وإن باعها من البائع بأقل لا يجوز عندنا ۔۔۔قید بقولہ قبل نقد الثمن لان ما بعدہ یجوز بالاجماع باقل من الثمن “ترجمہ:جس نےنقد یا ادھار میں ہزار درہم کی باندی خریدی ،پھر باندی پر قبضہ کر کے اسی  بیچنے والے شخص کو رقم ادا کرنے سے پہلے  خریدی گئی قیمت کے مثل یا زائد قیمت میں بیچ دی،تو جائز ہے اور اسی بائع کو کم قیمت میں بیچی، تو ہمارے نزدیک جائز نہیں ۔ صاحب ہدایہ نے رقم ادا کرنے سے پہلے کی قید ذکر فرمائی ،کیونکہ رقم ادا کرنے کے بعد کم قیمت میں بیچنا بالاجماع جائز ہے ۔(ھدایہ مع فتح القدیر ، کتاب البیوع،ج6، ص68، مطبوعہ کوئٹہ )

   فتاوی ہندیہ میں ہے:’’ولو اشتراه بأكثر من الثمن الأول قبل نقد الثمن أو بعده جاز۔۔۔وفي الفتاوى العتابية ولو قبض الثمن ثم اشتراه بأقل جاز‘‘ ترجمہ: اگر ثمن ادا کرنے سے پہلے یا بعد زیادہ قیمت میں خریدا، تو جائز ہے ۔۔۔ فتاوی عتابیہ میں ہے،ثمن پر قبضہ کرنے کے بعد کم قیمت میں خریدا ،تو جائز ہے ۔(فتاوی ھندیہ ، کتاب البیوع ، الباب التاسع ، ج3، ص132،مطبوعہ  پشاور)

   بہار شریعت میں ہے:’’جس چیز کو بیع کردیا ہے اور ابھی پوراثمن وصول نہیں ہوا ہے ،اُس کو مشتری سے کم دام میں خریدنا، جائز نہیں اگرچہ اس وقت اُس کا نرخ کم ہوگیا ہو۔۔۔ بائع نے اُس سے خریدی جس کے ہاتھ مشتری نے بیع کردی ہے یا ہبہ کردی ہے یا مشتری نے جس کے لیے اُس چیز کی وصیت کی اُس سے خریدی یا خود مشتری سے اُسی دام میں یازائد میں خریدی یا ثمن پرقبضہ کرنے کے بعد خریدی،یہ سب صورتیں جائز ہیں۔‘‘ (بھارشریعت ،ج2،ص708، مکتبۃ المدینۃ، کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم