Janwar Ki Khareedo Farokht Me Aik Naa Jaiz Sorat?

جانور کی خرید و فروخت میں ایک ناجائز صورت

مجیب: مفتی ابوالحسن محمدہاشم خان عطاری

فتوی نمبر:Jtl-0371

تاریخ اجراء:01ذی القعدہ1443ھ/01جون2022ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

     کیا فرماتے ہیں علمائےدین و مفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں  کہ میں   ہر سال اپنے ادارے میں  اجتماعی قربانی کا اہتمام کرتا ہوں، لیکن ہر سال میں بطور وکیل اجتماعی قربانی کرتا ہوں، جس کی وجہ سے رقم کا حساب رکھنا مشکل ہوتا ہے اور آخر میں باقی رقم بھی واپس کرنی ہوتی ہے، لہذا اس سال میں ”بیع سلم“ کے طریقے پر اجتماعی قربانی کا اہتمام کرنا چاہتا ہوں، یعنی جو بھی حصہ ڈالنا چاہے گا میں اسے کہوں گا کہ: آپ مجھے ایک حصے کے برابر رقم مثلاً:بیس ہزار روپے دے دیں، اس کے عوض  میں  چاند رات کو فلاں جنس، نوع ، عمر اور  وزن کے جانور کا ساتواں حصہ آپ کے سپرد کر دوں گا، پھر آپ چاہیں، تو عید والے دن آپ کی طرف سے قربانی کر دوں گا، کیا میرا ایسا کرنا، جائز ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

     آپ کا  یوں ”بیع سلم“ کے طور پر حصے بیچنا جائز نہیں ہے، کیونکہ جانوروں میں بیع سلم جائز نہیں ہوتی۔  فقہائے کرام  نے اس کی درج ذیل وجوہات بیان فرمائیں ہیں:

      (1)نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے جانوروں میں سلم کرنے سے منع فرمایا۔

      (2)جید صحابہ کرام مثلاً: حضرت عبد اللہ بن مسعود، حضرت عمر، حضرت حذیفہ اور حضرت سعید بن جبیر  رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین  نے اسے مکروہ و منع فرمایا۔

      (3)بیع سلم میں جو چیز خریدی جائے ، اس کے لیے شرط ہے کہ اسے صفات کے ساتھ متعین کیا جا سکے اور مستقبل میں نزاع کا باعث نہ بنے، لیکن جانوروں کو صفات سے متعین نہیں کیا جا سکتا ،کیونکہ صفات کے بیان کے بعد بھی مالیت میں تفاوت فاحش پایا جاتا ہے جو نزاع کا باعث بنتا ہے۔

     نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان:

     مستدرک للحاکم میں ہے:”عن ابن عباس رضی اللہ عنه، أن رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم نهى عن السلف في الحيوان “ترجمہ: حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حیوان میں بیع سلم سے منع فرمایا۔(مستدرک  للحاکم، جلد2، صفحہ 65، رقم الحدیث2341، دار الکتب العلمیہ، بیروت)

     امام حاکم اس حدیث کی سند کے متعلق فرماتے ہیں:” هذا حديث صحيح الإسناد ولم يخرجاه “ ترجمہ: اس حدیث کی سند صحیح ہے اور امام بخاری و امام مسلم رحمہما اللہ نے اسے بیان نہیں فرمایا۔(مستدرک  للحاکم، جلد2، صفحہ 65، رقم الحدیث2341، دار الکتب العلمیہ، بیروت)

     صحابہ کرام کے اقوال:

     کتاب الاثار میں امام ابو یوسف رحمہ اللہ امام اعظم رحمہ اللہ کی سند سے حدیث روایت فرماتے ہیں:” أن ابن مسعود رضی اللہ عنه أعطى زيد بن خليدة مالا مضاربة، فأسلم إلى عتريس بن عرقوب في قلائص معلومة إلى أجل معلوم، فحلت فأخذ منه بعضا وبقي بعض، فاشتد عليه فيما بقي، فأتى عبد اللہ وكلمه في أن ينظره فيما بقي، فأرسل إلى زيد فسأله فيما أسلمت ، قال: أسلمت إليه في قلائص معلومة بأسنان معلومة إلى أجل معلوم، فقال عبد اللہ: اردد ما أخذت منه وخذ رأس مالك، ولا تسلم شيئا من أموالنا في الحيوان “ ترجمہ: حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نےزید بن خلیدہ کو مضاربت پر اپنا مال دیا۔ انہوں نے عتریس بن عرقوب کے ساتھ مدت معلومہ پر متعین اونٹنیوں کے عوض  بیع سلم  کر لی۔   مدت مکمل ہو گئی ۔ زید بن خلیدہ رحمہ اللہ نے عتریس بن عرقوب رحمہ اللہ سے بعض جانور لے لیے اور بعض جانور باقی رہ گئے تو زید بن خلیدہ نے باقی جانوروں کے معاملے میں شدت اختیار کی۔ عتریس بن عرقوب  حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور باقی جانوروں کے متعلق مہلت طلب کی۔ انہوں نے زید بن خلیدہ رحمہ اللہ کی طرف مسلَم فیہ کا پوچھنے کے لیے قاصد بھیجا۔ زید بن خلیدہ رحمہ اللہ نے جواب دیا کہ میں نے مدت معلومہ پر متعین سال کی اونٹنیوں کی بیع سلم کی تھی۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا: جو تم نے اس سے جانور لیے وہ لوٹا دو اور اپنا راس المال لے لو، ہم اپنے مالوں کے ساتھ حیوان میں بیع سلم نہیں کرتے۔(کتاب الاثار، صفحہ 186، رقم الحدیث 845، دار الکتب العلمیہ، بیروت)

     مصنف ابن ابی شیبہ میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا یہ فرمان مروی ہے:”حدثنا أبو بكر قال: حدثنا وكيع، قال: حدثنا المسعودي عن القاسم بن عبد الرحمن قال: قال عمر: من الربا أن يسلم في سن“ ترجمہ: ہم سے ابوبکر نے بیان کیا ، ان سے وکیع نے بیان فرمایا، ان سے مسعودی نے بیان کیا، وہ قاسم بن عبد الرحمن سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: جانوروں میں بیع سلم کرنا سود ہے۔(مصنف ابن ابی شیبۃ، جلد4، صفحہ 419،مطبوعہ ریاض)

     اسی میں ہے:” حدثنا أبو بكر قال: حدثنا أبو خالد الأحمر عن حجاج عن قتادة عن ابن سيرين أن عمر وحذيفة وابن مسعود كانوا يكرهون السلم في الحيوان‘‘ترجمہ: ہم سے بیان کیا ابو خالد احمر نے  وہ حجاج از قتادہ از ابن سیرین روایت کرتے ہیں کہ حضرت عمر حذیفہ اور ابن مسعود رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین جانوروں میں سلم کو ناپسند فرماتے تھے۔(مصنف ابن ابی شیبۃ، جلد4، صفحہ 419، مطبوعہ  ریاض)

     اسی میں ایک اور جگہ پر ہے:” عن عمار قال: سمعت سعيد بن جبير يسأل عن السلم في الحيوان فنهى عنه “ حضرت عمار   سے مروی ہے، وہ فرماتے ہیں،میں نے سنا کہ کسی نے حضرت سعید بن جبیر رضی اللہ عنہ سے جانوروں میں بیع سلم کے بارے میں پوچھا ،تو آپ نے اس سے منع فرما دیا۔(مصنف ابن ابی شیبۃ، جلد4، صفحہ 419، مطبوعہ  ریاض)

     فقہائے  کرام کے اقوال:

     الحجۃ علی اہل المدینہ میں امام محمد  امام اعظم رحمہما اللہ سے روایت  فرماتے ہیں:”ان الحيوان لا يجوز فيه السلم “ترجمہ: جانوروں میں بیع سلم جائز نہیں ہے۔(حجۃ اھل المدینہ، جلد2، صفحہ 479، عالم الکتب، بیروت)

     ہدایہ میں ہے:” ولا يجوز السلم في الحيوان وقال الشافعي: يجوز لأنه يصير معلوما ببيان الجنس والسن والنوع والصفة والتفاوت بعد ذلك يسير فأشبه الثياب. ولنا أن بعد ذكر ما ذكر يبقى فيه تفاوت فاحش في المالية باعتبار المعاني الباطنة فيفضي إلى المنازعة “ ترجمہ:  حیوان میں بیع سلم جائز نہیں ہے۔ امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں جائز ہے ،کیونکہ جانور جنس، عمر، نوع اور صفت کے بیان کے ساتھ معلوم و متعین ہو جاتا ہے اور اس کے بعد تفاوت بہت کم رہ جاتا ہے، تو یہ کپڑے کی طرح ہو جائے گا۔ ہماری دلیل یہ ہے کہ مذکورہ بالا چیزیں بیان کرنےکے بعد بھی  باطنی صفات کی بنیاد پر جانور  کی مالیت میں تفاوت فاحش باقی رہتا ہے، جو جھگڑے کی طرف لے جاتا ہے۔ (ھدایہ، جلد3،صفحہ71،  دار احیاء التراث العربی، بیروت)

     وقار الفتاوی میں ہے: ” جانوروں میں بیع سلم جائز نہیں ، اس لیے کہ بیع سلم میں جس چیز کو خریدا جاتا ہے، وہ ایسی ہونی چاہیے کہ اس کو صفات سے متعین کیا جا سکے ۔ جانور کو صفات سے متعین نہیں کیا جا سکتا ۔(وقار الفتاوی، جلد2، صفحہ 471، بزم وقار الدین، کراچی)

     اشکال:

     ہمارے زمانے میں جانور کو وزن کر کے بیچنا جائز ہے اور یہ مفضی الی النزاعبھی نہیں ہوتا۔لہذا جانورکی ”بیع سلم“ میں بھی وزن اور دیگر صفات متعین کر دی جائیں، تو  کیا وہ جائز نہیں ہو جائے گی؟

     جواب:

     جانور کو وزن کے حساب سے متعین کرنے کے باوجود بھی جانور میں ”بیع سلم“  کرنا، جائز نہیں ہے، کیونکہ ”بیع سلم“ کی ممانعت نص سے ثابت ہے ۔علامہ عینی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ” قال ابن مسعود: اردد مالنا، لا نسلم أموالنا في الحيوان، فعلم أن عدم جواز السلم في الحيوان لم يكن فيه باعتبار ترك الوصف، لأن القلائص كانت معلومة، فكان المنع لكونه حيوانا “ترجمہ: حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا یہ فرمان ”ہمارا مال ہمیں واپس کر دو، ہم اپنے مالوں کے ساتھ حیوان میں بیع سلم نہیں کرتے “ اس سے پتا چلتا ہے کہ جانوروں میں بیع سلم کے ناجائز ہونے کی وجہ اس وصف کا نہ پایا جانا نہیں ہے، کیونکہ (اس واقعے میں) اونٹ معلوم تھے،  لہذا ممنوع اس وجہ سے ہے کہ بیع سلم ”جانوروں“ میں تھی۔ (البنایہ، جلد8، صفحہ335، دار الکتب العلمیہ، بیروت)

     اسی میں ہے:” فإن قلت: السلم في الحيوان إنما لا يصح لتفاوت يعتبره الناس والتفاوت من العصافير غير معتبر، فينبغي أن يجوز السلم فيها. قلنا: العبرة في المنصوص لعين النص لا للمعنى“ترجمہ: اگر آپ یہ اعتراض کریں کہ جانوروں میں سلم ایسے تفاوت کی وجہ سے صحیح نہیں ہے،  جو لوگوں میں معتبر ہو، لیکن چڑیا میں تفاوت معتبر نہیں ہے، تو اس میں سلم جائز ہونا چاہیے۔ ہم جواب دیتے ہیں کہ (جانوروں میں سلم کے متعلق نص ہے اور )منصوص اشیا  ءمیں اعتبار علت کی بجائے نص کا ہوتا ہے۔(البنایہ، جلد8، صفحہ336، دار الکتب العلمیہ، بیروت)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم