Janwar Tol Kar Bechna Kaisa?‎

جانور تول کر بیچنا کیسا ؟

مجیب:مولانا ماجد صاحب زید مجدہ

مصدق:مفتی فضیل صاحب مدظلہ العالی

فتوی نمبر:kan:8480

تاریخ اجراء:01ذوالحجۃ الحرام1432ھ29اکتوبر2011ء

دَارُالاِفْتَاء اَہْلسُنَّت

(دعوت اسلامی)

سوال

     کیافر ما تے ہیں علما ئے کر ام و مفتیا ن شر ع متین اس مسئلے میں کہ جانورمثلاً بکرا،گائے وغیرہ کو زندہ تول کربیچناوخریدناکیساہے ؟ اگرجائزہے توکس دلیل سے اور اگرناجائزہے تواسکی علت کیاہے؟

سائل :محمدمختار اشرفی(داتا گارڈن نزد کنزالایمان ،کراچی)

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

     زندہ جانور کووزن کر کے  خریدنا و بیچنا جائز ہے اس میں شرعاً کوئی حرج نہیں ہے۔

     بعض اوقات ہدایہ کی اس عبارت سے وہم پیدا ہوتا ہے ، جس میں یہ کہا گیا ہے کہ جانور کو عام طور پر وزن کر کے فروخت نہیں کیا جاتا ہے چنانچہ ہدایہ کا مکمل مسئلہ ملاحظہ ہو :’’قال ویجوز بیع اللحم بالحیوان عند أبی حنیفۃ رحمہ اللہ وأبی یوسف رحمہ اللہ وقال محمد إذا باعہ بلحم من جنسہ لا یجوز إلا إذا کان اللحم المفرز أکثر لیکون اللحم بمقابلۃ ما فیہ من اللحم والباقی بمقابلۃ السقط إذ لو لم یکن کذلک یتحقق الربا من حیث زیادۃ السقط او من حیث زیادۃ اللحم فصار کالخل بالسمسم ولھما أنہ باع الموزون بما لیس بموزون لأن الحیوان لا یوزن عادۃ ولا یمکن معرفۃ ثقلہ بالوزن لأنہ یخفف نفسہ مرۃ بصلابتہ ویثقل أخری بخلاف تلک المسألۃ لأن الوزن فی الحال یعرف قدر الدھن إذا میز بینہ وبین الثجیر ویوزن الثجیر ‘‘یعنی زندہ جانور کی بیع گوشت کے بدلے میں امام اعظم اور امام ابو یوسف علیہما الرحمہ کے نزدیک جائز ہے اور امام محمد علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ اگر اس نے جانور کے وزن کے برابر گوشت کے بدلے میں خریدا ، تو جائز نہیں ہے ، ہاں اگر گوشت جانور میں موجود گوشت سے زیادہ ہے تا کہ گوشت گوشت کے مقابلے میں ہو جائے اور زائد گوشت جانور کے سقط یعنی سری پائے وغیرہ کے مقابلے میں ہو جائے تو جائز ہو گا اور اگر ایسا نہ ہوا تو گوشت زیادہ ہونے کی وجہ سے یا پھر سری پائے وغیرہ زیادہ ہونے کی وجہ سے سود متحقق ہوجائے گا جیسا کہ سرکے کو تل کے بدلے میں بیچنا ،اور امام اعظم اور امام ابو یوسف علیہما الرحمہ فرماتے ہیں کہ اس نے وزنی شے کو اس شے کے بدلے میں بیچا جو وزنی نہیں ہے کیونکہ حیوان کو عادتاً تول کر نہیں بیچا جاتا اور اس کا وزن تولنے سے معلوم بھی نہیں ہو تا کیونکہ کبھی وہ سانس کے ذریعے اپنے آپ کو ہلکا کر لیتا ہے اور کبھی بھاری کر لیتا ہے جبکہ امام محمد علیہ الرحمہ کے مسئلے میں ایسا نہیں کیونکہ تیل کا وزن معلوم کیا جاسکتا ہے جب اس کو چھلکوں سے الگ کر لیا جائے اور چھلکوں کا وزن کر لیا جائے ۔‘‘    (ہدایہ مع فتح القدیرج7،ص26،27،دارالفکر ،بیروت)

     ہدایہ کی عبارت ’’أن الحیوان لا یوزن عادۃ‘‘سے یہ شبہ پیدا ہوتا ہے کہ جانور کو تول کر بیچنا جائزنہیں ہے حالانکہ یہاں صرف اتنا کہا گیا ہے کہ عادتاً جانورکا وزن نہیں کیا جاتا یہ نہیں کہا گیا کہ جانور کا وزن خرید و فروخت کے اعتبار سے کیا ہی نہیں جا سکتا اور عموماً وزن نہ کرنے کی وجہ بھی بتائی کہ اس کا وزن کرتے وقت اس کے سانس اندر لینے اور باہر نکالنے کی وجہ سے ا س کے درست وزن کا پتہ نہیں چلتا جبکہ صاحب ہدایہ علیہ الرحمہ کا اصل مقصود یہاں یہ مسئلہ بیان کرنا ہے کہ  شیخین علیہما الرحمہ اور امام محمد علیہ الرحمہ کا اختلاف یہاں ربوٰا کی ایک علت یعنی مکیلی یا موزونی ہونے یا نہ ہونے کے اعتبار سے ہے شیخین علیہماالرحمہ کے نزدیک جانور کو کیونکہ عموماً وزن کر کے نہیں بیچا جاتا بطورِ عدد بیچا جاتا ہے ، لہٰذا گوشت کے بدلے میں بیچتے ہوئے اس میں عدد ہی کا اعتبار ہو گا اور جانور کے وزن کے برابر بھی گوشت ہوا ، تو سود متحقق نہ ہو گا ، جبکہ امام محمد علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں کہ جانور اگرچہ عادتاً وزن نہیں کیا جاتا اس کے باوجود گوشت کے بدلے فروخت کرنے میں اس میں وزن کا اعتبار کیا جائے گا، لہٰذا گوشت جانور کے وزن سے زیادہ ہونا چاہئے تاکہ گوشت کے بدلے میں گوشت ہو جائے اور سری پائے وغیرہ کے بدلے میں بقیہ گوشت ہو جائے ۔ جبکہ ہمارا مسئلہ جانور کو گوشت کے بدلے میں خریدنے کا نہیں بلکہ جانور کو روپوں کے بدلے میں خریدنے کا ہے جہاں سود متحقق ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہو تا۔

     ہاں اب یہاں یہ اعتراض ہو سکتا ہے کہ جب اس کو وزن سے خریدا جائے گا ، تو سانس اندر لینے اور باہر نکالنے کی وجہ سے وزن میں فرق آئے گا اور اگر مبیع کے وزن میں جہالت ہو تو بیع جائز نہیں ہوتی ۔۔۔تو اس کا جواب یہ ہے کہ خریدو فروخت کرتے ہوئے وزن میں اس طرح کی تھوڑی بہت کمی بیشی جس سے نزاع واقع نہ ہو خریدو فروخت کو ناجائزنہیں کرتی ، یہ مسئلہ اپنی جگہ پر مسلم ہے اورہدایہ میں اس کی نفی نہیں ہے ، کیونکہ ان کے دور میں جانور وزن کر کے نہیں بیچے جاتے تھے اور اس کے بعد بھی کافی عرصہ یہ سلسلہ چلتا رہا، پھر جانور کو تول کر بیچنے کا رواج شروع ہوا اور ہمارے دور میں ہمارے قطر کے بلادِ کثیرہ میں عوام و خواص بلا نکیر اس کی خریدو فروخت وزن کے ساتھ کرتے ہیں ۔ جیسا کہ برائیلر مرغی کی خریدوفروخت کا سلسلہ ہے، لہٰذا شرعاً اس جانور کو وزن کر کے بیچنا جائز ہے ، اگر بالفرض تعامل کے تحقق میں کلام بھی ہو تو جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا کہ جہالت یسیرہ ہے جو مفضی الی المنازعہ ہرگز نہیں ہوتی اس لئے جواز ہی کا حکم ہے ۔

     مبیع میں ایسی جہالت جو خریدوفروخت کے جواز کو مانع ہے اور ایسی جہالت جو خریدوفروخت کے جوا ز کو مانع نہیں ہے اس  کے بارے میں فتاویٰ عالمگیری میں ہے:’’جھالۃ المبیع أو الثمن مانعۃ جواز البیع اذا کان یتعذر معھا التسلیم وان کان لا یتعذر لم یفسد العقد کجھالۃ کیل الصبرۃ بأن باع صبرۃ معینۃ ولم یعرف قدر کیلھا ‘‘یعنی جس بیع میں مبیع یا ثمن مجہول ہے ، وہ بیع فاسد ہے ، جبکہ ایسی جہالت ہوکہ تسلیم میں نزاع ہوسکے اور اگر تسلیم میں کوئی دشواری نہ ہو تو فاسد نہیں مثلاًگندم کے ڈھیر کے وزن میں جہالت ہونا اس طر ح سے کہ معین گندم کا ڈھیر بیچا اور اس کا وزن معلوم نہیں ہے ۔‘‘( عالمگیری، ج3، ص122، مطبوعہکوئٹہ)

     اوراگر حدیثِ ربا کی وجہ سے شبہ پیدا ہوتا ہے ، تو یہ بھی درست نہیں ہے کیونکہ حدیثِ ربا میں ذکر کردہ مکیلی اشیاء کو روپوں کے بدلے میں وزن کے اعتبار سے اور وزنی اشیاء کو روپوں کے بدلے ماپ کے اعتبار سے خریدنا اور بیچنا جائز ہے ، تو جس چیز یعنی جانور کے مکیلی یا موزونی ہونے کا اعتبار ہی عرف و عادت پر ہے ، اس کو پیسوں کے بدلے میں وزن کرکے بیچنا کیوں ناجائز ہو گا ؟

     صدرالشریعہ بدرالطریقہ حضرت علامہ مولانا مفتی محمد امجد علی اعظمی علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں :’’گیہوں ،جو،کھجوراورنمک جن کاکیلی ہونا منصوص ہے اگر ان کے متعلق لوگوں کی عادت یوں ہی جاری ہو کہ ان کو وزن سے خریدوفروخت کرتے ہوں جیسا کہ یہاں ہندوستان میں وزن ہی سے یہ سب چیزیں بکتی ہیں اور بیع سلم میں وزن سے ان کا تعین کیا مثلاً اتنے روپے کے اتنے من گیہوں یہ سلم جائز ہے اس میں حرج نہیں ۔‘‘(بہارِ شریعت ح11،ص164،مکتبہ المدینہ،کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُعَزَّوَجَلَّوَرَسُوْلُہ اَعْلَمصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم