Khare Pani Ko Filter Karke Bechna Kaisa ?

کھارے پانی کو فلٹر کرکے بیچنے کا کاروبار کرنا

مجیب:مولانا محمد انس رضا عطاری مدنی

فتوی نمبر:WAT-2900

تاریخ اجراء: 17محرم الحرام1446 ھ/24جولائی2024  ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   پانی کا کاروبار کرنا کیسا ،جو کھارے پانی کو فلٹر کر کے بیچا جاتا ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   کھارے پانی کو فلٹر کر کے بیچنا جائز ہے،کیونکہ پانی جب تک اپنی اصل جگہ مثلاً  دریا، کنویں وغیرہ میں موجود ہے، اس وقت تک وہ کسی کی ملک نہیں ، مباح ہے، لیکن اگر اسے وہاں سے  نکال کر اپنے پاس کسی حوض ، ٹینکی، بوتل اوربرتن وغیرہ میں جمع کر لیا جائے ،تو  وہ جمع کرنے والے کی  ملک ہو جاتا ہے، پھر اگر وہ اس پانی کو بیچنا چاہے، تو بیچ بھی سکتا ہے۔

   پانی کی بیع سے متعلق مجمع الانہر شرح ملتقی الابحر میں ہے”(وما احرز من الماء بحب و کوز  و نحوہ لایوخذ الا برضی صاحبہ و لہ )ای لصاحب الماء المحرز (بیعہ )ای بیع الماء لانہ ملکہ بالاحراز و صار کالصید اذا اخذہ “ ترجمہ: اور جو پانی ،مٹکا، کوزہ وغیرہ کسی برتن میں جمع کر کے محفوظ کر لیا گیا، اسے مالک کی مرضی کے بغیر نہیں  لیا جائے گا اور اس یعنی محفوظ کردہ پانی کے مالک کے لئے اسے بیچنا یعنی پانی کو بیچنا جائز ہے ،کیونکہ احراز کرنے کی وجہ سے وہ اس کا  مالک ہو گیا اور یہ ایسا ہے کہ جیسے شکار کہ جب کوئی اسے پکڑ لے۔(مجمع الانھر شرح ملتقی الابحر،کتاب احیاء الموات،ج 2،ص 563، دار إحياء التراث العربي)

   بہار شریعت میں ہے” وہ پانی جس کو گھڑوں ،مٹکوں یا برتنوں میں محفوظ کر دیا گیا ہو اُس کو بغیر اجازت مالک کوئی شخص صرف میں نہیں لا سکتا اور اس پانی کو اس کا مالک بیع بھی کر سکتا ہے۔“( بہار شریعت ،ج 3، حصہ 17 ،ص 667،مکتبۃ المدینہ)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم