Khareed o Farokht Mein Ye Shart Lagana, Qist Teen Months Tak Ada Naa Ki To Soda Cancel Ho Jayega

خرید و فروخت میں یہ شرط لگانا قسط تین ماہ تک ادا نہ کی تو سودا کینسل ہوجائے گا

مجیب:مفتی ابو محمد علی اصغر عطاری مدنی

فتوی نمبر:Nor-12853

تاریخ اجراء:12ذوالقعدۃ الحرام1444ھ/02جون2023ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ہم فلیٹس کی بکنگ کرتے  اور فلیٹس بنا کر بیچتے ہیں ۔ سودا کرتے وقت ہم  گاہک سے یہ طے کرلیتے ہیں کہ اگر  قسط تین ماہ تک ادا نہ کی تو یہ سودا کینسِل ہوجائے گا اور جتنی رقم خریدار نے جمع کروائی ہوگی وہ بھی واپس کر دی جائے گی۔ اس صورت کا کیا حکم ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   استصناع (یعنی آرڈر پر کوئی چیز بنوانا) بیع ہی ہے اوربیع میں ایسی شرط لگانا جو عقد کے تقاضے کے خلاف ہو اور اس میں بیچنے یا خریدنے والے کا فائدہ ہو، تو ایسی شرط بیع کو فاسد کر دیتی ہے۔ پوچھی گئی صورت میں فلیٹوں کی خریدو فروخت میں جو شرط لگائی جارہی ہے کہ اگر  قسط تین ماہ تک ادا نہ کی، تو سودا ختم ہوجائے گا یہ شرط بھی عقد کے تقاضے کے خلاف ہے کیونکہ  اس میں بیچنے والے کا نفع ہے،اس شرطِ فاسد کی وجہ سے بیع فاسد قرار پائے گی۔ فلیٹوں کی بیع اگر درست طریقہ کار کے مطابق کرنا چاہتے ہیں ، تو مذکورہِ شرطِ فاسد کو ختم کر کے معاہدہ کرنا ہوگا۔

   ہدایہ مع البنایہ میں ہے:”والصحیح ان الاستصناع (یجوز بیعا) “یعنی صحیح یہ ہے کہ استصناع بطورِ بیع جائز ہے۔(الھدایۃ مع البنایۃ، جلد 8،صفحہ 374، مطبوعہ:بیروت)

   فتاوی رضویہ میں ہے:”عند التحقیق اِستصناع ہر حال میں بیع ہی ہے،کما نص علیہ فی المتون وصححہ المحققون من الشراح (جیسا کہ متون نے اس پر نص کی اور محقق شارحین نے اس کی تصحیح فرمائی)“(فتاوی رضویہ،جلد17،صفحہ599، رضا فاؤنڈیشن ،لاھور)

   ہدایہ میں ہے:”کل شرط لا یقتضیہ العقد وفیہ منفعۃ لاحد المتعاقدین او للمعقود علیہ وھو من اھل الاستحقاق یفسدہ “یعنی ہر وہ شرط جس کا عقد تقاضا نہ کرتا ہو اور اس میں عاقدین میں سے کسی ایک یا معقود علیہ کا فائدہ ہو جبکہ وہ اھلِ استحقاق سے ہو، تو یہ بیع کو فاسد کر دے گی۔(ھدایہ مع البنایۃ، جلد8،صفحہ 181، مطبوعہ:بیروت)

   صدرالشریعہ بدرالطریقہ حضرت علامہ مولانا مفتی محمد امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ بیع میں شرط لگانے سے متعلق لکھتے ہیں: ”جو شرط مقتضائے عقد کے خلاف ہو اور اس میں بائع یا مُشتری یا خود مبیع کا فائدہ ہو (جب کہ مبیع اہلِ استحقاق سے ہو) وہ بیع کو فاسد کردیتی ہے۔“(بہارِ شریعت،جلد 2،صفحہ702، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

   صدر الشریعہ مفتی امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:”بیع فاسد میں مشتری پر اولاً یہی لازم ہے کہ قبضہ نہ کرے اور بائع پر بھی لازم ہے کہ منع کر دے ، بلکہ ہر ایک پر فسخ کردینا واجب اور قبضہ کر ہی لیا ، تو واجب ہے کہ بیع کو فسخ کرکے مبیع کو واپس کر لے یا کردے ، فسخ نہ کرنا گناہ ہے“ (بھارِ شریعت، جلد2،صفحہ 714، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم