Kuffar Ke Istimali Kapre Farokht Karne Ka Hukum?

کفار کے استعمال شدہ کپڑے فروخت اور استعمال کرنے کا حکم؟

مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر:  Pin-4845

تاریخ اجراء: 16محرم الحرام1438ھ18اکتوبر2016ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے کے  بارے میں کہ زید کے کاروبار کا طریقہ یوں ہے کہ سردیوں کے موسم میں یورپین ممالک سے کفار کے استعمالی کپڑے مثلاً:جیکٹ ،جرسیاں ،جرابیں اور گرم ٹوپیاں وغیرہ آتی ہیں،جو پاکستان کے بڑے بڑے ڈیلر خرید لیتے ہیں،پھر زید ان سے یہ چیزیں انتہائی سستے داموں خرید کر بازار میں مسلمانوں کو فروخت کر دیتا ہے ،جبکہ بکر کا کہنا ہے کہ زید کا کا روبار شریعت کے مطابق نہیں،پہلی بات تو یہ ہے کہ اسلام میں چیز کی اصلی قیمت کے علاوہ دُگنا اور چگنا نفع لینے کی اجازت نہیں اور دوسری بات یہ کہ کفار کے استعمالی کپڑوں کے بارے میں ہمیں علم نہیں کہ یہ پاک ہیں یا ناپاک تو مسلمانوں کو استعمال کے لیے  یہ فروخت کرنا صحیح نہیں ،برائے کرم شرعی رہنمائی فرمائیں کہ بکر کا قول واقعی درست ہے یا نہیں ؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   دریافت کی گئی صورت میں زید کے لیے یہ کاروبار کرنا،جائز ہےاور بکر کا اسے خلاف شرع بتانا درست نہیں،بلکہ قوانین ِشریعت کے خلاف ہے،تفصیل اس کی یہ ہے کہ زید جب ڈیلروں سے سامان خریدتا ہے، تو وہ اس کا مالک ہو جاتا ہے اور شریعتِ مطہرہ نے اپنی چیز سے نفع کمانے کی کوئی شرح مقرر نہیں کی،بندہ جتنے کی چاہے بیچے ،خریدار کی مرضی وہ خریدے یا نہ خریدے،لیکن شرط یہ ہے کہ اس میں جھوٹ اور دھوکے سے کام نہ لیا جائے ،مثلاً: کسی چیز کے بارے میں یوں کہنا کہ میں نے اتنے کی خریدی ہے،حالانکہ اتنے کی نہیں خریدی ہوتی ،اسی طرح اس چیز کے عیب کو بیان کیے بغیر بیچ دینا یا بیچی گئی چیز کو بدل دیناوغیرہ وغیرہ کہ یہ سب حرام ہےاور ایسی تجارت سے برکت بھی اٹھ جاتی ہے ۔

   اللہ تبارک وتعالیٰ قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے:﴿ یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَاۡکُلُوۡۤا اَمْوالَکُمْ بَیۡنَکُمْ بِالْباطِلِ اِلَّاۤ اَنۡ تَکُوۡنَ تِجَارَۃً عَنۡ تَرَاضٍ مِّنۡکُمْ ﴾اے ایمان والو !آپس میں ایک دوسرے کے مال نا حق نہ کھاؤ،مگر یہ کہ کوئی سودا تمہاری باہمی رضا مندی کا ہو ۔(پارہ5،سورۃالنساء،آیت29)

   درر الحکام و رد المحتار میں ہے۔واللفظ للاخر:’’لو باع کاغذۃ بالف یجوز ولا یکرہ‘‘اگر کوئی شخص اپنے کاغذ کا ایک ٹکڑا ایک ہزار روپے کے بدلے میں بیچے،تو یہ خریدو فروخت بلا کراہت جائز ہے۔ (رد المحتار ،کتاب الکفالہ،مطلب فی بیع العینہ،ج7،ص655،مطبوعہ پشاور)

   اعلیٰ حضرت ، امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ سے سوال ہوا کہ’’آج کل دکاندار عموما ًہر چیز کی قیمت بڑھا کر کہتے ہیں اور پھر اس سے کم پر بیچ ڈالتے ہیں ،یہ شرعا جائز ہے ،یا نہیں ؟ہر ایک کا چار پیسے کی چیزکا دگنی یا تین گنی قیمت پر فروخت کرنا ،جائز ہے؟‘‘تو اس کے جواب میں ارشاد فرمایا:’’دونوں باتیں جائز ہیں،جبکہ جھوٹ نہ بولے ،فریب نہ دے ،مثلاً:کہا یہ چیز تین یا چار پیسے کی میری خرید ہےاور خریدی پونے چار کو تھی یا کہا خرچ ملاکر مجھے سوا چار میں پڑی ہےاور پڑی تھی پونے چار کو یا خرید وغیرہ ٹھیک بتائے، مگر مال بدل دیا ،یہ دھوکہ ہے ،یہ صورتیں حرام ہیں ،ورنہ چیزوں کے مول لگانے میں کمی بیشی حرج نہیں رکھتی ۔‘‘(فتاوی رضویہ،ج17،ص138،مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن،لاھور)

   اور رہا ان کپڑوں کا مسلمانوں کو فروخت کرنا اور مسلمانوں کا انہیں استعمال کرنا!تو یہ بھی بلا شبہ جائز ہے، کیونکہ اشیاءمیں اصل طہارت ہے جب تک ان کے نجس ہونے کا یقین یا ظن ِغالب نہ ہو جائے ،لہذا یورپین ممالک سے آنے والے کفار کے استعمالی کپڑوں میں جب تک نجاست کا اثر دکھائی نہ دے طہارت ہی کا حکم ہو گا اور ان کی خریدو فروخت بھی جائز ہے ،اگر یہ کپڑے ناپاک ہوتے یا ان کا استعمال منع ہوتا ،تو قرنِ اولیٰ میں صحابہ کرام علیہم الرضوان کفار سے مالِ غنیمت میں حاصل ہونے والے کپڑوں کو دھونے سے پہلے استعمال نہ کرتے ۔

   علامہ ابو بکر کاسانی رحمۃ اللہ علیہ کفار کے استعمالی کپڑوں کے بارے میں ارشاد فرماتے ہیں:’’ الاصل في الثياب هو الطهارة، فلا تثبت النجاسة بالشك،ولان التوارث جار فيما بين المسلمين بالصلاة في الثياب المغنومة من الكفرة قبل الغسل‘‘(کفار کے)کپڑوں میں (بھی)اصل طہارت ہے،لہذا فقط شک کی بناء پر ان کا نجس ہو نا ثابت نہیں ہو گا اور اس لیے کہ کفار سے مالِ غنیمت میں حاصل ہونے والے کپڑوں کو دھونے سے پہلے ان میں نماز پڑھنا مسلمانوں میں نسل در نسل رائج رہا ہے۔(بدائع الصنائع،کتاب الطھارۃ ،بیان ما ینقض الوضوء،ج1،ص236،مطبوعہ کوئٹہ)

   سیدی عبد الغنی نابلسی رحمۃ اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں:’’سراویل الکفرۃ من الیھود والنصاری والمجوس یغلب علی الظن نجاستہ لانھم لایستنجون من غیر ان یأخذ القلب بذلک فتصح الصلاۃ فیہ لان الاصل الیقین بالطھارۃ،وغالب الظن اذا لم یاخذ بہ القلب فھو بمنزلۃ الشک ،والیقین لا یزول با لشک‘‘یہودیوں، عیسائیوں، مجوسیوں وغیرہ کفار کی شلواریں اکثر طور پر ناپاک ہوتی ہیں ، کیونکہ وہ استنجاء نہیں کرتے، لیکن جب تک یہ بات دل میں نہ جمے تو ان میں نماز صحیح ہے ،کیونکہ اصل چیز طہارت کا یقین ہےاور جب تک ظن ِغالب نہ ہو ،تو وہ شک کی منزلت میں ہے اور یقین شک کے ساتھ زائل نہیں ہو تا ۔ (حدیقۃ ندیۃ،ج2،ص711،مطبوعہ مکتبہ نوریہ رضویہ،پاکستان)

   اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں :’’اصل اشیاء میں طہارت وحلت ہے جب تک تحقیق نہ ہو کہ اس میں کوئی ناپاک یا حرام چیز ملی ہے،محض شبہہ پر نجس وناجائز نہیں کہہ سکتے۔۔ہاں اگر کچھ شبہہ ڈالنے والی خبر سن کر احتیاط کرے تو بہتر ہے۔۔مگر ناجائز وممنوع نہیں کہہ سکتے۔‘‘ (فتاوی رضویہ،ج21،ص620،مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن،لاھور)

   مزید فرماتے ہیں :’’تامل کرو !کس قدر معدن بے احتیاطی بلکہ مخزن ہرگونہ گندگی ہیں کفار خصوصاً ان کے شراب نوش کے کپڑے علی الخصوص پاجامے کہ وہ ہرگز استنجے کا لحاظ رکھیں نہ شراب پیشاب وغیرہما نجاسات سے احتراز کریں ،پھر علماء حکم دیتے ہیں کہ وہ پاک ہیں اور مسلمان بے دھوئے پہن کر نماز پڑھ لے تو صحیح وجائز جب تک تلوث واضح نہ ہو۔‘‘(فتاوی رضویہ،ج4،ص490،مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن،لاھور)

   اورصدر الشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ سے سوال ہوا :’’انگریزوں کے مستعمل گرم کوٹ جو بازاروں میں کم قیمت پر فروخت ہوتے ہیں ،آیا خرید کر استعمال میں لانا ، جائز ہے یا نہیں ؟‘‘تو اس کے جواب میں ارشاد فرمایا :’’کفار کے وضع کے کپڑے پہننا ناجائز ،یعنی جو وضع ان کے ساتھ مخصوص ہو ،اس سے احتراز لازم،حضرت امیر المومنین فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا:’’ایاکم وزی الاعاجم کما ھو مروی فی صحیح مسلم ‘‘اگر خاص ان کی وضع کے نہ ہو ں،تو استعمال کر سکتے ہیں،اگرچہ پرانے خریدے گئے ہوں کہ قرنِ اول میں صحابہ کرام اموال ِغنیمت میں کفار کے کپڑے بھی لیتے اور انہیں استعمال فرماتے ،یو ں ہی وہ کپڑے جو ان کی وضع کے ہیں، ان کو کاٹ کر دوسری وضع کے بنا لیے جائیں کہ اب وہ کفار کی وضع کے باقی نہ رہیں، تو ان کا استعمال کرنا بھی جائز ہے۔‘‘(فتاوی امجدیہ،ج4،ص61، مطبوعہ مکتبہ رضویہ،کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم