Kya Janwar Ki Intestine Bechna Jaiz Hai?

کیا جانور کی آنتیں بیچنا شرعاً جائز ہے ؟

مجیب:مفتی محمد  قاسم عطاری

فتوی نمبر:Sar-7320

تاریخ اجراء:21شوال المکرم1442ھ/02جون2021ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ جانور کی آنتیں بیچنا کیسا ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   آنتوں کا کھانا مکروہِ تحریمی اور ناجائز وگناہ ہے، لہٰذا اِنہیں ایسے شخص کے ہاتھ فروخت کرناکہ جس کے بارےمیں بالیقین معلوم ہو کہ یہ اُنہیں کھائے گا، تو اُسے بیچنا ناجائز  وگناہ ہے، کیونکہ یہ گناہ پر مدد کرنا ہے اور گناہ  کے کاموں پر ایک دوسرے کی مدد کرنے سے اللہ پاک نے منع فرمایاہے،  البتہ اُس شخص کو بیچنا کہ جو اِس کا جائز استعمال کرے گا یا خریدار کے جائز یا ناجائز استعمال کے متعلق کچھ بھی معلوم نہیں ہے، تو اُسے  بیچنا جائز ہے، جیسا کہ فقہائے کرام نے اَفْیون   کے بارے میں ارشاد فرمایا کہ کسی ایسے شخص کو  بیچنا کہ جو یقیناً اِس  کا ناجائز استعمال کرے گا ، تو اُسے فروخت کرنا،  ناجائز ہے، لیکن اگر  ایسے شخص کو بیچی کہ جس کے بارے میں بیچنے والا جانتا ہے کہ یہ اِس کا ناجائز استعمال نہیں کرے گا یا یقینی طور پر معلوم نہیں کہ کیسا استعمال کرے گا،  تو بیچنا جائز ہے۔

   آنتوں کا کھانا مکروہِ تحریمی ہے، چنانچہ امام اہلسنت امام احمد رضا خان رَحِمَہ اللہ (سالِ وفات:1340ھ/1921ء) لکھتے ہیں:’’اب فقیر متوکلا علی اللہ کوئی محل شک نہیں جانتا کہ دُبر یعنی پاخانے کا مقام، کرش یعنی اوجھڑی ،امعاء یعنی آنتیں بھی اس حکم کراہت میں داخل ہیں۔‘‘(فتاویٰ رضویہ، جلد20،صفحہ238،مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن،لاھور)

   آنتوں کا معاملہ خرید وفروخت میں  اَفْیون   کی طرح ہے، اور اَفْیون  کے متعلق امام اہلسنت امام احمد رضا خان رَحِمَہ اللہ  لکھتے ہیں:’’افیون   کی تجارت دواکے لیے جائز اور افیونی کے ہاتھ بیچنا ناجائزہے۔‘‘ (فتاویٰ رضویہ، جلد23،صفحہ601،مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن،لاھور)

   یونہی آپ رَحِمَہ اللہ جدُّالمُمْتار“ میں لکھتے ہیں:’’ان بیع الاَفْیون   والبنج وا مثالھما ایضاً مکروہ الا ممن علم انہ لا یشتریھا للمعصیۃ۔‘‘ترجمہ:اَفْیون  ، بھنگ اور اِس طرح کی دیگر چیزوں کی خرید وفروخت مکروہ ہے، مگر ایسا شخص کہ جس کے بارے میں معلوم ہو کہ یہ گناہ کے لیے نہیں خریدتا  تو اُسے بیچنا جائز ہے۔ (جد الممتار، جلد7، کتاب الحظر والاباحۃ، صفحہ78، مکتبۃ المدینہ،کراچی)

   اِسی کتاب میں دو صفحے قبل لکھتے ہیں:’’ان الشئی اذا صلح فی حد ذاتہ بان یستعمل فی معصیۃ و فی غیرھا و لم یتعین للمعصیۃ فلم یکن بیعہ اعانۃ علیھا، لاحتمال  ان یستعمل فی غیر المعصیۃ و انما یتعین ذلک بقصد القاصدین والشک لایؤثر۔‘‘ترجمہ:جب کوئی شے  اپنی ذات کے اعتبار سے گناہ اور گناہ کے علاوہ ہر دو طرح کے کام میں استعمال ہو سکتی ہو اور خاص گناہ کے لیے متعین نہ ہو، تو اُسے بیچنا گناہ پر مدد کرنا نہیں کہلائے گا، کیونکہ یہ احتما ل موجود ہے کہ وہ گناہ کے علاوہ کسی اور جائز کام میں استعمال کرلے۔ کسی چیز کا تعیُّن ارادہ کرنے والوں کے ارادے سے ہوتا ہے (اور ارادہ معلوم نہیں تو محض شک ہی رہ گیا )اور شک مؤثِّر نہیں ہوتا، (یعنی شک پائے جانے کی صورت میں بھی بیچنا جائز ہے۔) (جد الممتار، جلد7، کتاب الحظر والاباحۃ، صفحہ76، مکتبۃ المدینہ،کراچی)

   صدرالشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رَحِمَہ اللہ (سالِ وفات:1367ھ/1947ء) لکھتے ہیں:’’اِس(اَفْیون  ) کی بیع ایسے شخص سے کرنا جو اسے ناجائز طور پر کھاتا ہو، ممنوع ہے کہ یہ معصیت پر اعانت ہے۔      (فتاوی امجدیہ، جلد3،صفحہ183،مطبوعہ مکتبہ رضویہ،کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم