Kya Wakeel Ka Qabza Mokil Ka Qabza Shumar Hota Hai?

وکیل کا قبضہ مؤکل کا قبضہ شمار ہوتا ہے؟

مجیب:مفتی ابومحمد علی اصغرعطاری

فتوی نمبر:Nor-12747

تاریخ اجراء:13شعبان المعظم1444ھ/06مارچ2023ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ اگر کسٹمر سیلر سے یہ کہے کہ آپ میری طرف سے سامان لوڈ کرنے والی گاڑی کرواؤ، گاڑی کے پیسے میرے ذمے ہیں، تو کیا گاڑی والے کا قبضہ کرنا کسٹمر کا قبضہ کہلائے گا؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   اگر واقعی خریدار کے کہنے پرسامان  بیچنے والا کسی گاڑی والے سے بات کر کے سامان لوڈ کروا دے گا، تو گاڑی والے کا قبضہ اس چیز کو خریدنے والے کا قبضہ شمار ہوگا، کیونکہ یہاں گاڑی والا اس خریدار کی طرف سے وکیل کی حیثیت سے اس سامان پر قبضہ کر رہا ہے اور وکیل کا قبضہ مؤکل کا قبضہ شمار ہوتا ہے ۔یہاں گاڑی والے کو  خریدار کی طرف سے قبضہ کرنے کا وکیل  ماننے کی وجہ یہ ہے کہ گاڑی والا خریدار کا اجیر ہے اور اپنے کام کی اجرت خریدار سے  وصول کرے گا۔

   مشتری اجرت دے گا،تو اجیر کا قبضہ مشتری کا قبضہ ہو گا۔ فتاوی بزازیہ ،فتاوی تاتارخانیہ اور فتاوی  عالمگیری میں ہے،و النظم للھندیہ: ”اذا قال المشتری للبائع ابعث الی ابنی ، و استاجر البائع رجلا یحملہ الی ابنہ ، فھذا لیس بقبض والاجر علی البائع  الا ان یقول:  استاجر علیّ من یحملہ ، فقبض الاجیر یکون قبض المشتری إن صدقه أنه استأجر ودفع إليه“ترجمہ: مشتری نے بائع سے کہا مال میرے بیٹے کو پہنچا دو ، بائع نے ایک شخص کو  اجیر بنا کر مال بیٹے کو بھیج دیا، تو یہ قبضہ نہیں ، اس کی اجرت بائع پر ہے ۔الا یہ کہ مشتری کہہ دے ، میری طرف سے اجیر رکھ کر سامان بھیج دو، تو اجیر کا قبضہ مشتری کا قبضہ ہو گا، جبکہ وہ تصدیق کر دے کہ اسے اجیر بناکر سامان دےدیا ہے ۔(الفتاوی الھندیۃ ،کتاب البیوع ، الباب الرابع ، ج3 ، ص19 ، پشاور)(فتاوی تاتارخانیہ ، کتاب البیوع ، الفصل الرابع ، ج8،ص263، ھند)(فتاوی بزازیہ علی ھامش الھندیہ،  کتاب البیوع ، الفصل الخامس عشر ، ج4، ص517، پشاور)

   سوال میں بیان کردہ صورت  میں اجیر  یعنی گاڑی والا  مشتری کا وکیل ہے اور وکیل کا قبضہ موکل ہی کا قبضہ ہوتا ہے۔مبسوط سرخسی میں ہے : ”قبض الوکیل فی حق المؤکل کقبضہ بنفسہ“ ترجمہ: مؤکل کے حق میں وکیل کا قبضہ خود مؤکل کے قبضہ کرنے کی طرح ہے ۔(المبسوط للسرخسی ، باب الوکالۃ فی الدم و الصلح ، ج19 ، ص176 ، مطبوعہ کوئٹہ)

   رد المحتار میں ہے”لأن قبض الوكيل كقبضه“ترجمہ:کیونکہ وکیل کا قبضہ مؤکل ہی کے قبضے کی طرح ہے۔(رد المحتار،باب شروط الاجارہ،ج6،ص 13، بیروت)

   بہار شریعت میں ہے : ”وکیل کا قبضہ مؤکل ہی کا قبضہ ہے ۔“(بھار شریعت ، ج3، ص180، مکتبۃ المدینہ،کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم