Laboratory Mein Gold Ka Test Karne Ke Baad Kharidari Ki Mukhtalif Soraton Ka Hukum?

لیبارٹری میں سونے کا ٹیسٹ کرنے کے بعد خریداری کی مختلف صورتوں کا حکم؟

مجیب:محمد ساجد  عطاری

مصدق:مفتی ابوالحسن  محمد ہاشم خان عطاری

فتوی نمبر:Jtl-1017

تاریخ اجراء:15ذو القعدۃ الحرام1444ھ/05جون2023ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیافرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ شرعِ متین ان مسائل کے بارے میں کہ

   (1)میں سنار مارکیٹ میں سونا ٹیسٹ کرنے والی لیبارٹری میں کام کرتا ہوں۔جہاں دوکاندار اپنا کھوٹ ملا سونے کا زیور لاتے ہیں،اس میں اگرچہ سونا غالب اور کھوٹ کم مقدار میں ہوتی ہے ،لیکن تناسب معلوم نہیں ہوتا۔لیبارٹری میں ٹیسٹ کے بعد ان کو بتا دیا جاتا ہے کہ اس میں کھوٹ اتنی ہے اور خالص سونا اتنا ہے۔پھر اگر وہ گاہک کھوٹ والا سونا ہمیں دے کر خالص سونا لینا چاہے ،تواس کا دیا ہوا کھوٹ والا سونا ہم رکھ لیتے ہیں اور انہیں   24 کیرٹ کا خالص  سونا  اپنے پاس سے دے دیتے ہیں ۔لیکن جو خالص سونا ہم اسے دیتے ہیں ،یہ ان کے لائے ہوئے سونے کے وزن کے برابر نہیں ہوتا، بلکہ کھوٹ کو مائنس کرنے کے بعد جتنا خالص سونا نکلتا ہے، اتنا ان کو دے دیا جاتا ہے۔ مثلاً:اگر  کسی  شخص نے  12 گرام کھوٹ والا سونا لا کر ہمیں دیا اور ہم نے ٹیسٹ کر کے معلوم کیا کہ اس میں خالص سونا  10 گرام 520 ملی گرام ہے ۔ توپھر باہم رضا مندی سے ہم اس کو12 گرام کھوٹ والے  سونے کے بدلے خالص سونا  10 گرام 520 ملی گرام دے دیتے ہیں ۔ کیا ہمارا اس طرح کرنا ،جائز ہے ؟

   (2)جب ہم گاہک کی رضامندی کے بعد ان کو خالص سونا دیتے ہیں، تو اس کے ساتھ ہم سونا صاف کرنے کی فیس بھی لیتے ہیں ۔ فرض کریں اگر ایک گرام سونا صاف کرنے کی فیس 200 روپے ہے، تو 12 گرام کھوٹ والے سونے کے بدلے ہم خالص سونا  10 گرام 520 ملی گرام دیں  گے اور اس گاہک سے 2400 روپے فیس بھی وصول کریں گے۔کیا یہ بات درست ہے؟ اگر جائز نہیں، تو اس کادرست طریقہ کیا ہے ؟

   (3)تیسراسوال  اس میں یہ ہے کہ  کھوٹ کے علاوہ خالص  سونے کا وزن اگر  10 گرام 524 ملی گرام(یا 523 یا 522 یا 521 ملی گرام) بنتا ہے۔ تو ہم اسے 10 گرام 520 ملی گرام ادا کرتے ہیں اور اگر خالص  سونے کا وزن 10 گرام 526 ملی گرام(یا 527 یا 528 یا 529 ملی گرام)  بنتا ہے، تو ہم اسے 10 گرام 530 گرام ادا کرتے ہیں۔ یہ طریقہ پوری مارکیٹ میں رائج ہے اور سب دکانداروں کو معلوم ہے اور یہ جو چند ملی گرام کا فرق ہوتا ہے اس پر کوئی اعتراض نہیں کرتا ،کیونکہ اس کی رقم بہت معمولی بنتی ہے۔اور ایسا کرنے کی وجہ یہ ہے کہ جس الیکٹرک ترازو سے سونا وزن کیا جاتا ہے ، وہ 10 ملی گرام سے کم وزن نہیں دکھاتا ، اس لیے ادائیگی کے وقت کچھ ملی گرام کم کر کے یا زیادہ کر کے  10 کا ہندسہ مکمل  لیا جاتا ہے۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   (1) پہلے سوال  کا جواب:

   سونے کی خریدو فروخت کا جو طریقہ سوال میں بیان کیا گیا کہ  لیبارٹری والے گاہک کا لایا ہوا زیادہ وزن کا کھوٹ ملا سونا رکھ کر اس کے بدلےکم وزن کا  خالص سونا دیتے ہیں ، یہ طریقہ خالص سود ، حرام حرام حرام  اور جہنم میں لے جانے والا کام ہے ۔مسلمانوں کو اس سے بچنا فرض ہے۔ احادیث مبارکہ میں حضور نبی اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے اس سے بالکل  واضح انداز سے منع فرمایا ہے اور حکم دیا ہے کہ سونے کو جب سونے کے بدلے فروخت کرو ،تو دونوں طرف سونا برابر برابر ہونا چاہیے اور تبادلہ ہاتھوں ہاتھ ہونا چاہیے ۔

   یہ بھی واضح رہے کہ جب سونا سونے کے بدلے بیچیں گے، تو اگرچہ ایک طرف والا سونا کم کوالٹی کا ہے (یعنی اس میں کھوٹ زیادہ ہے)اور دوسری طرف اعلی کوالٹی کا ہے (یعنی اس میں کھوٹ کم ہے) تب بھی دونوں طرف وزن کے اعتبار سے برابری ہونا ضروری ہے کہ جن اشیاء میں سود متحقق ہوتا ہے،ان کو اگر اپنی ہی جنس کے بدلے بیچا جائے ،تو کوالٹی اور قیمت کا اعتبار نہیں ہے ،وزن کر کے برابری کرنا ضروری ہے ، یہی شریعت کا حکم ہےاور مسلمان اسی پر عمل کرنے کا پابند ہے ،چاہے حکمت سمجھ آئے یا نہ آئے۔

   حضرت ابو سعید خدری سے مروی ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ و سلم نےفرمایا کہ” الذهب بالذهب، والفضة بالفضة، والبر بالبر، والشعير بالشعير، والتمر بالتمر، والملح بالملح، مثلا بمثل، يدا بيد، فمن زاد، أو استزاد، فقد أربى، الآخذ والمعطي فيه سواء“ترجمہ: سونا سونے کے عوض اور چاندی چاندی کے عوض،گندم گندم کے عوض،جَو جَو کے عوض اور چھوہارے چھوہاروں کے عوض اورنمک نمک کے عوض برابر برابر ہاتھ بہ ہاتھ بیچو ۔  جو زیادہ دے یا زیادہ لے اس نے سود کا کاروبار کیا،لینے والا، دینے والا اس میں برابر ہے۔(صحيح المسلم، جلد3، صفحہ 1211، دار إحياء التراث العربي ، بيروت )

   انہی سےمروی ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  کہ” لا تبيعوا الذهب بالذهب، إلا مثلا بمثل، ولا تشفوا بعضها على بعض “ترجمہ: سونا سونے کے بدلے نہ بیچو مگر برابر برابر۔ اور بعض کی بعض پر زیادتی نہ کرو۔(صحيح المسلم، جلد3، صفحہ 1208، دار إحياء التراث العربي، بيروت )

   مصنف عبد الرزاق اور السنن الکبری للیبہقی  وغیرہ میں ہے کہ حضرت ابو رافع بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت عمربن خطاب  رضی اللہ تعالی عنہ  سےعرض کیا :”اے امیر المؤمنین ! میں سونے کے زیورات بناتا ہوں، اور پھر اس زیور کو اتنے ہی وزن کے  سونے کے بدلے فروخت کردیتا ہوں اور زیور میں کیے ہوئے کام کی مزدوری  بھی لیتا ہوں ، (تو کیا یہ درست ہے ؟ )“ اس پر حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا: ” لا تبع الذهب بالذهب إلا وزنا بوزن، والفضة بالفضة، إلا وزنا بوزن، ولا تأخذ فضلا “ترجمہ: تم سونا سونے کے بدلے نہ بیچو،مگر برابر وزن میں اور چاندی چاندی کے بدلے نہ بیچو ،مگر برابر وزن میں ، اور اس پر کسی قسم کا اضافہ نہ لو۔( مصنف عبد الرزاق الصنعاني، جلد8، صفحہ 125، المجلس العلمي،الهند)

   ہدایہ میں ہے: ” (فإن باع فضة بفضة أو ذهبا بذهب لا يجوز إلا مثلا بمثل وإن اختلفا في الجودة والصياغة) لقوله  عليه الصلاة والسلام  «الذهب بالذهب مثلا بمثل وزنا بوزن يدا بيد والفضل ربا» الحديث“ترجمہ: پس اگر چاندی چاندی کے بدلے بیچی یا سونا سونے کے بدلے،تو یہ جائز نہیں، مگر  یہ کہ برابر برابر ہو تو جائز ہے،اگرچہ ان   دونوں کی  کوالٹی  اور بناوٹ میں فرق ہو، اس لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان ہے کہ :”سونا سونے کے بدلے برابر برابر، ہم مثل اور ہم وزن ہو، اور( کسی بھی طرف )اضافہ کرنا یہ سود ہے۔ “ الحدیث ۔(الهدايہ، باب الصرف، جلد3، صفحہ 81، دار إحياء التراث العربي ، بيروت )

   بہار شریعت میں ہے: ”چاندی کی چاندی سے یا سونے کی سونے سے بیع ہوئی یعنی دونوں طرف ایک ہی جنس ہے ،تو شرط یہ ہے کہ دونوں وزن میں برابر ہوں اور اُسی مجلس میں دست بدست قبضہ ہو۔۔۔۔اتحادِ جنس کی صورت میں کھرے کھوٹے ہونے کا کچھ لحاظ نہ ہوگا یعنی یہ نہیں ہوسکتاکہ  جدھر کھرا مال ہے اُدھر کم ہو اور جدھر کھوٹا ہوزیادہ ہوکہ اس صورت میں بھی کمی بیشی سود ہے۔ “(بھار شریعت ، جلد2 ، صفحہ821،  مکتبۃ المدینہ ، کراچی)

   (2)دوسرے سوال کا جواب:

   آپ چونکہ گاہک کا لایا ہوا سونا صاف کر کے اس کو نہیں دیتے ،بلکہ اس کا کھوٹ والا سونا اپنے پاس رکھ لیتے ہیں اور اپنے پاس سے خالص سونا اس کو دے دیتے ہیں ،اس لیے یہاں آپ نے  گاہک کے لیے  سونے کی صفائی کا عمل کیا ہی نہیں، بلکہ آپ نے کھوٹ والے سونے کے بدلے اپنا خالص سونا بیچا ہے ۔ لہذا آپ سونے کی صفائی کے نام پر کسی قسم کی  فیس لینے کے  مستحق نہیں ہیں۔اوریہ فیس کے نام پر جو رقم لیں گے یہ بھی در اصل اس خریدو فروخت کا حصہ کہلائے گی۔ یعنی اس کو یوں شمار کیا جائے گا کہ گاہک نے آپ کو 12 گرام کھوٹ والا سونا اور ساتھ میں 2400 روپے دیئے جس کے بدلے میں آپ نے اس کو خالص سونا  10 گرام 520 ملی گرام دے دیا۔اگر آپ یہ فیس کے نام پر 2400 نہ بھی لیتے، تو دوسری طرف سونا پھر بھی زیادہ تھا، لیکن مزید فیس کے نام پر آپ نے جو رقم لی اس سے تو دوسری طرف اور بھی اضافہ ہوگیا۔اور یہ معاہدہ ناجائز و حرام ہی رہا ،بلکہ اس فیس نے گناہ بڑھا دیا۔

   مذکورہ بالا تجارت کے درست و جائز  طریقے:

   لیبارٹری والے اگر درست طریقے سے یہ کام کرنا چاہیں، تو ہم یہاں ذیل میں اس کے دو آسان طریقے بیان کرتے ہیں:

   پہلا درست طریقہ :

   ایک آسان   طریقہ یہ ہے کہ سونا ٹیسٹ کرنےکا عمل تومقررہ فیس کے بدلے کر لیں ۔ اس کے بعد پھر اگر گاہک ملاوٹ والے سونےکے بدلے خالص سونا لینا چاہے،تواس کے لیے دو معاہدے (deals)کریں۔ اور فرض کریں کہ ملاوٹ والے 12 گرام سونے میں سے جو خالص سونا نکلا اس کی قیمت ڈیڑھ لاکھ بن رہی ہے، تو اب لیبارٹری والے اور گاہک درج ذیل دو  معاہدے  کریں۔

   (۱)پہلے لیبارٹری والے  ملاوٹ والا سونا گاہک سے  کرنسی کے بدلے خرید لیں، مثلاً: ملاوٹ والا  12 گرام سونا ڈیڑھ لاکھ روپے کا خرید لیا ۔اب سونا  لیبارٹری والوں کی مِلک میں آ گیا اور ان کے ذمہ گاہک کے  ڈیڑھ لاکھ روپےادا کرنا لازم ہوگیا۔

   (۲) پھر دوسرا معاہدہ کریں کہ گاہک کہے آپ مجھے ڈیڑھ لاکھ دینے کے بجائے ڈیڑھ لاکھ کا خالص سونا   دے دیں۔اور لیبارٹری والے ڈیڑھ لاکھ کے بدلے جتنا خالص سونا آتا ہے، اتنا اس کے حوالے کر دیں۔

   (نوٹ: یہ واضح رہے کہ یہ دوسری ڈیل جس مجلس میں ہو اسی مجلس میں خالص سونا مکمل طور پر اس گاہک کے حوالے کر دیں ۔ ادھار نہ کریں، کیونکہ ادھار کریں گے ،تو دوطرفہ دَین (ادھار) کا معاملہ ہو جائے گا ،جسے شریعت میں بیع الکالی بالکالی کہا جاتا ہے اور یہ حرام ہے۔)

   یہ طریقہ درج ذیل احادیث سے مستفاد ہے:

   صحیح بخاری و صحیح مسلم  میں ہے کہ بلال رضی اﷲ تعالی عنہ نبی صلی اﷲ تعالی علیہ وسلم کے پاس برنی کھجوریں  لائے۔ نبی صلی اﷲتعالی علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ یہ تم  کہاں سےلائے ہو؟ بلا ل رضی اﷲ تعالی عنہ نے عرض کی :ہمارے پاس ردی قسم کی کھجوریں تھیں، ہم نے اس کے دو صاع کے بدلے ان کا ایک صاع خریدا۔ نبی صلی اﷲ تعالی علیہ وسلم نے فرمایا:” أوه أوه، عين الربا عين الربا، لا تفعل، ولكن إذا أردت أن تشتري فبع التمر ببيع آخر، ثم اشتره “ترجمہ:  اف خاص ربا ہے، خاص ربا ہے؛ ایسا نہ کرو۔  جب ان کو خریدنا چاہو، تو اپنے چھوہاروں کو کسی اور چیز سے بیچ کراس چیز کے بدلے ان کو خریدلو۔(صحيح البخاري ، جلد3، صفحہ 102، دار طوق النجاۃ، بیروت)

   امام سرخسی رحمۃ اللہ تعالی علیہ مبسوط میں اور علامہ بابرتی عنایہ میں  لکھتے ہیں،واللفظ للاول :’’وعن أبي جبلة قال سألت عبد اللہ بن عمر رضي اللہ عنهما فقلت: إنا نقدم أرض الشام ومعنا الورق الثقال النافقة، وعندهم الورق الخفاف الكاسدة أفنبتاع ورقهم العشرة بتسعة ونصف؟ فقال: لا تفعل، ولكن بع ورقك بذهب، واشتر ورقهم بالذهب، ولا تفارقه حتى تستوفي، وإن وثب من سطح فثب معه‘‘ ترجمہ:ابو جبلہ سے مروی ہے کہ میں نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے دریافت کیا: ہم ملک شام میں جاتے ہیں اور ہمارے پاس رائج وزنی چاندی کے سکے ہوتے ہیں  اور ان کے پاس غیر رائج ہلکےچاندی کے سکے ہوتے ہیں ،کیا ہم ان کے دس چاندی کے سکوں کو اپنے ساڑھے نو چاندی کے سکوں کے بدلے میں خرید سکتے ہیں؟ آپ رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا: ایسا نہ کرو، بلکہ اپنے چاندی کے سکوں کو سونے کے بدلے میں بیچ دو اور ان کے چاندی کے سکوں کو سونے کے بدلے میں خرید لو اور جدا ہونے سے پہلے ادائیگی کر دو اور اگر وہ زمین سے اٹھے ،توتم بھی اس کے ساتھ اٹھ جاؤ ۔(المبسوط سرخسی، جلد14، صفحہ4، دار المعرفہ، بیروت)(عنایہ شرح ھدایہ، جلد7، صفحہ137،  دار الفکر، بیروت )

   دوسرا  طریقہ :

   دوسرا آسان طریقہ یہ ہے کہ لیبارٹری والے چونکہ زیادہ وزن کا کھوٹ والا سونا لے کر کم وزن کا خالص سونا دیتے ہیں، تو وہ ڈیل یوں کریں کہ جس طرف کم وزن کا خالص سونا ہے ،اس طرف سونے کے ساتھ کچھ رقم (یا کوئی اور چیز ) ملا کر پھر اس رقم اور خالص سونے کے بدلے کھوٹ والا سونا خرید لیں۔

   مثلا 12 گرام کھوٹ والےسونے کے بدلے خالص سونا  10 گرام 520 ملی گرام دینا  ہے ۔ تولیبارٹری والے گاہک سے  ڈیل یوں کریں کہ ہم   10 گرام 520 ملی گرام خالص سونا اور ایک سو روپے  کے بدلے میں آپ سے 12 گرام کھوٹ والا سونا خریدتے ہیں،جسے گاہک قبول کرلے اور پھر اسی مجلس میں دونوں ایک دوسرے کی چیز پر قبضہ کر لیں۔ یوں یہ معاہدہ حلال طریقے سے مکمل ہو جائے گا  ۔

   اس ڈیل میں   10 گرام 520 ملی گرام خالص سونا دوسری طرف کے اتنے ہی سونے کے بدلے ہو جائے گا اور سو روپے جوخالص سونے کے ساتھ دیئے وہ دوسری طرف کے بقیہ سونے کے بدلے ہو جائیں گے۔ اور بغیر سود میں پڑے مقصود حاصل ہو جائے گا۔

   نوٹ:اس مثال میں جو سو روپے کا ذکرکیا یہ فقط مثال ہے ، رقم کم یازیادہ بھی ہو سکتی ہے اور رقم کے علاوہ کوئی چیز مثلا قلم یا کتاب وغیرہ بھی خالص سونے کے ساتھ دی جا سکتی ہے۔

   صاحب  ہدایہ  لکھتے ہیں:  ولو تبايعا فضة بفضة أو ذهبا بذهب وأحدهما أقل ومع أقلهما شيء آخر تبلغ قيمته باقي الفضة جاز البيع من غير كراهية، وإن لم تبلغ فمع الكراهة “ترجمہ: اگر  فریقین نے چاندی کو چاندی کے بدلے میں یا سونے کو سونے کے بدلے میں بیچا اور دونوں میں کوئی ایک  کم ہو اور اس کے ساتھ کوئی اور چیز بھی ہو جو کہ باقی چاندی کی قیمت کو پہنچ جائے، تو یہ بیع بلا کراہت جائز ہے اور اگر چاندی کی قیمت کو نہ پہنچے تو کراہت کے ساتھ جائز ہے۔(ھدایہ،کتاب البیوع، جلد3، صفحہ 83، دار احیاء التراث العربی ، بیروت)

   امام اہل سنت سیدی اعلی حضرت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن اس مسئلے کے بارے میں لکھتے ہیں:”ان الکراھۃ فیما اذا لم یبلغ المضموم قیمۃ الفضل انما اثرت عن محمد اماالامام الاعظم والھمام الاقدم وصاحب المذھب الاکرم رضی ﷲ تعالٰی عنہ فد نص علی عدم الکراھۃ فیہ قال فی الفتح بعد ذکر المسألۃ قیل لمحمد کیف تجدہ فی قلبک قال مثل الجبل ولم ترو الکراھۃ عن ابی حنیفۃ بل صرح فی الایضاح انہ لا باس بہ عند ابی حنیفۃ اھ وسیأ تی فی مثلہ عن البحر عن القنیۃ عن البقالی ان عدم الکراھۃ ھو مذھب ابی حنیفۃ وابی یوسف معا رضی ﷲ تعالٰی عنھما وفی الھندیۃ قبیل الکفالۃ عن محیط السرخسی عن محمد رحمہ ﷲ تعالٰی انہ قال لو باع الدرھم بالدرھم وفی احدھما فضل من حیث الوزن وفی الاٰخر فلوس جاز ولکن اکرھہ لان الناس یعتادون التعامل بمثل ھذا ویستعملونہ فیما لایجوز، وقال ابوحنیفۃ رحمہ ﷲ تعالٰی لاباس بہ لانہ امکن تصحیحہ بان یجعل الفضل بازاءالفلوس وبالجملۃ النقل عن الامام فاش مستفیض و معلوم ان العمل والفتوی علی قول الامام علی الاطلاق الا لضرورۃ کتعامل بخلافہ ونحوہ وقد فصلناہ فی کتاب النکاح من العطایا النبویۃ بما لامزید علیہ، واما رابعا وھو الطراز المعلم فلان الحق ان ھذہ الکراھۃ  لیست الاکراھۃ تنزیہ الخ “ ترجمہ:  جس حالت میں کم کے ساتھ ملائی ہوئی چیز کی قیمت، مقدار زیادت کو نہ پہنچے حکم کراہت صرف امام محمد سے مروی ہے اور امام اعظم ہمام اقدم صاحب مذہب اکرم رضی اﷲ تعالی عنہ نے تصریح فرمائی کہ اس میں کچھ کراہت نہیں، فتح القدیر میں اس مسئلہ کو ذکر کرکے فرمایاامام محمد سے عرض کی گئی کہ اس کو آپ اپنے نزدیک کیسا پاتے ہیں ؟ فرمایا پہاڑ کی طرح گراں، اور امام اعظم سے کراہت مروی نہیں بلکہ ایضاح میں تصریح فرمائی کہ اس میں امام اعظم کے نزدیک کچھ حرج نہیں انتہی۔ اور اس صورت کے مثل میں عنقریب بحر سے بحوالہ قنیہ آتا ہے کہ امام بقالی نے فرمایا کہ اس میں کراہت نہ ہونا امام اعظم اور امام ابویوسف رضی اﷲتعالی عنہما دونوں کا مذہب ہے اور فتاوٰی عالمگیری میں کفالت سے کچھ پہلے بحوالہ محیط امام سرخسی امام محمد سے ہے کہ اگر ایک روپیہ ایک روپیہ کو بیچا اور ایک وزن میں زیادہ ہے اور کم وزن والے کے ساتھ کچھ پیسے ہیں، تو جائز ہے، مگر میں اسے مکروہ سمجھتا ہوں کہ لوگ اس قسم کے معاملے کے عادی ہوجائیں گے، پھر ناجائز جگہ بھی یہ کارروائی کرنے لگیں گے اور امام اعظم نے فرمایا اس میں کچھ حرج نہیں اور اس واسطے کہ اسے یوں صحیح ٹھہرانا،ممکن ہے کہ وہ زیادتی پیسوں کے مقابل ہوجائے، بالجملہ امام سے یہ روایت مشہور و معروف ہے اور معلوم ہے کہ عمل وفتوی ہمیشہ قول امام پر ہے،مگرکسی ضرورت سے جیسے کہ عمل در آمد مسلمانوں کا اس کے خلاف پر ہوگیا ہو، اور ایسی ہی بات ہم نے العطایا النبویہ کی کتاب النکاح میں ایسی مفصل بیان کی ہے جس سے زیادہ کوئی بیان نہیں۔رابعاً :اور وہی سب سے زیادہ چمکتی بات ہے ،حق یہ کہ کراہت صرف کراہت تنزیہی ہے۔ (ت)“ (فتاوی رضویہ، جلد17، صفحہ ،454، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

   لیبارٹری والے اور گاہک اگر مذکورہ بالا طریقے سے معاہدہ کر لیں گے، توان کا مقصود بھی پورا ہو جائے گا اورجب  وہ سود سے بچ کر حلال طریقے سے تجارت کریں گے،اس میں اللہ تعالی کی طرف سے برکت کی امید بھی بہت زیادہ ہے۔

   (3)تیسرے سوال کا جواب:

   خالص  سونے کا وزن اگر  10 گرام 524 ملی گرام بنا ،لیکن آپ نے گاہک کو  10 گرام 520 ملی گرام دیا  526 ملی گرام بننے پر  530 ملی گرام دیا، تو یہ  معاملہ چونکہ مارکیٹ میں معروف ہے اور  گاہک کو بھی پتا ہوتا ہے اوراس قدر  معمولی تفاوت  پر کوئی اعتراض بھی نہیں کرتا، تو اس کو دھوکا وغیرہ کے زمرے میں تو نہیں لایا جائے گا، جیسا کہ امام اہل سنت سیدی اعلی حضرت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن مصنوعی گھی بیچنے کے متعلق لکھتے ہیں: ” ۔۔۔ جب خریدارو ں پر اس کی حالت مکشوف ہو اور فریب ومغالطہ راہ نہ پائے ،تو اس کی تجارت جائزہے۔۔۔۔ بالجملہ:مدار کا ظہور امر پرہے ،خواہ خود ظاہر ہو ۔۔۔یا بجہت عرف و اشتہار مشتری پرواضح ہو۔۔۔ خواہ یہ خو دحالت واقعی تمام وکمال بیان کرے ۔ “(فتاوی رضویہ، جلد17، صفحہ150، رضا فاؤنڈیشن ،لاھور)

   لیکن اس کے باوجود یہ معاملہ تو حرام ہی رہے گا ،کیونکہ آپ کھوٹ والےزیادہ سونے کے بدلے خالص سونا کم وزن میں ہی  دیتے ہیں اور چند ملی گرام کم یا زیادہ کرنے سے دونوں طرف سونا برابر نہیں ہوتا، حالانکہ دونوں طرف برابر ہونا ہی شریعت کو مطلوب ہے۔اور اس تجارت کو جائز طریقے سے کرنا چاہیں، تو اس کے حل وہی ہیں ،جو ہم نے اوپر تفصیل سے بیان کیے۔

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم