local Oil Par Branded Company Ka Sticker lagana Kaisa

آئل کے ڈرم پرنقلی اسٹیکرلگاکرآئل بیچنا

مجیب: ابوصدیق محمد ابوبکر عطاری

فتوی نمبر: WAT-1003

تاریخ اجراء:       23محرم الحرام1444 ھ/23اگست2022 ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   آئل کے خالی ڈرم پر نقلی (duplicate)اسٹیکر یا اس کی فوٹو کاپی لگا کر   آئل بیچنا کیسا ہے جبکہ جس کمپنی کا اسٹکیر لگایا جا رہا ہے اس کی طرف سے یوں کرنے کی اجازت نہیں ہے اس سے کمپنی کا نام بھی خراب ہوتا ہے اور اس کی مارکیٹ میں ویلیو گرنے کی وجہ سے اسے نقصان ہوتا ہے  ؟اور جس کے بارے میں ہمیں معلوم ہو  کہ وہ  ہم سے  کسی کمپنی کے  بغیر اس  کی اجازت کے اسٹیکر پرنٹ کروا کر یوں دو نمبر کام کرے گا تو اسے اسٹیکر پرنٹ کر کے دینا کیسا ؟نیز جن لوگوں کو یہ بتا کر بیچا کہ یہ اصل نہیں بلکہ نقلی (duplicate)ہے تو کیا حکم ہو گا؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   پوچھی گئی صورت میں خالی ڈرم  پر نقلی اسٹیکرز لگا کر ان میں آئل بھر کے بیچنا متعدد وجوہ سے ناجائز ہے:

 (1) کمپنیز  کی اجازت ووکالت کے بغیر ان کے نام و مونو گرام  کے اسٹیکرز لگانا،ناجائز ہے کہ یہ قانونا جرم ہے  اورہر وہ کام جو قانوناًجر م ہو اور شریعت سے نہ ٹکراتا ہوتواس کی پاسداری کرنالازم ہوتا ہےکہ اس کا خلاف کرنے  کی صورت میں خود کو سزاوذلت  کے لیے پیش کرناپایاجائے گا جوکہ جائز نہیں۔اعلی حضرت  امام احمد رضاخان رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ارشادفرماتے ہیں :”ایسے امر کاارتکا ب جو قانوناً،ناجائز ہواور جرم کی حد تک پہنچے، شرعاًبھی ناجائز ہوگا کہ ایسی بات کے لئے جر م قانونی کامرتکب ہوکر اپنے آپ کوسزااور ذلت کے لئے پیش کرناشرعابھی روانہیں۔“(فتاوی رضویہ ،جلد20،صفحہ192،رضافاؤنڈیشن،لاہور)

   (2)اس میں دھوکا دینا بھی ہے وہ یوں کہ جن بعض دکانداروں کو معلوم نہیں ہوتااور بتایا بھی نہیں جاتا ان کو ضرور دھوکا ہوتاہےکہ یہ اصل کمپنی کی چیز ہے جبکہ وہ کمپنی  کی نہیں ہوتی اوردھوکے   کی مذمت اور اس کے ناجائز و حرام ہونے میں بکثرت احادیث وارد ہوئی ہیں چنانچہ

   صحیح ابن حبان، معجم کبیر امام طبرانی اور جامع صغیر وغیرہ کتب کی حدیث مبارک میں نبی اکرم صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: ”من غشنا فلیس منا والمکروالخداع فی النار.“ یعنی جس نے دھوکہ دیا وہ ہم میں سے نہیں اور مکرکرنے والا اور دھوکہ دینے والا دونوں جہنمی ہیں۔(صحیح ابن حبان جلد12، صفحہ369 مؤسسة الرسالة، بیروت)

   اس حدیث پاک کے تحت فیض القدیر میں ہے :"والغش ستر حال الشئ"یعنی دھوکا سے مراد کسی شی کی اصل حالت کو چھپاناہے۔(فیض القدیر،ج6،ص240،مطبوعہ بیروت)

   (3)کمپنی کی اجازت کے بغیر  ان کے نام  سے لوکل مال بیچنا  ان کی حق تلفی ہے اور انہیں نقصان پہنچانا ہے کہ اس سے ان کا معیار خراب ہوتا ہےیوں کسی کو   نقصان پہچانا بھی جائز نہیں ہے۔

   فتاوی یورپ میں ہے :’’اپنی دوکان یا فارم یا تنظیم کا کوئی نہ کوئی نام رکھ لینے کا حق ہرآدمی کو حاصل ہے لیکن اگر کوئی نام کسی نے رکھ لیا اور اسی نام کے ساتھ اس کا مفاد وابستہ ہو گیا تو اب دوسرے شخص کو یہ حق نہ رہا کہ اسی نام کا استعمال کرے خصوصا ایسی صورت میں جبکہ وہ نام رجسٹریشن بھی ہو چکا ہو کیونکہ اس میں عوام کو دھوکا دینے اور اپنے بھائی کے تجارتی مفاد کو غصب کرنے کے علاوہ آئینی جرم کا ارتکاب بھی ہے ۔۔۔۔۔۔کسی دوسرے کو اسے نقصان پہنچانے کی اجازت نہیں کیونکہ شریعت اسلامیہ نے نقصان و ضرر برداشت کرنے اور کسی کو نقصان و ضرر پہنچانے دونوں سے منع فرمایا ہے ’’ لاضرر و و لا ضرار فی الاسلام‘‘ پس کوئی سامان خرید کر اس کی نقلیں اتارنا پھر اسے بازار میں فروخت کرنا اس کی کمپنی یا اصل موجد یا بائع کو نقصان و ضرر پہنچانا ہے اور جہاں یہ صورت پائی جائے اسلام اس کی ہر گز اجازت نہیں دے سکتا۔ ‘‘(فتاوی یورپ،ص443تا444،شبیر برادرز لاہور)

   (4) نیزاس میں جھوٹ کا بھی شائبہ ہے کہ جو آئل کمپنی کا نہیں ہے اس پر کمپنی کا مونو گرام لگانا اسے جھوٹ کا  جامہ پہنانا ہے کہ خلاف واقع بات کا اظہار ہے اور بات کا واقع کے  مطابق نہ ہونا جھوٹ ہوتاہے۔چنانچہ فتاوی رضویہ   میں ہے :’’ ظاہر ہے کہ یہ خضاب اسی لئے ہوگا کہ عورت پر اظہار جوانی کرے۔ جوان ہے نہیں اور اس کی نگاہ میں جوان بنے تو رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے ارشاد سے وہ شخص سر سے پاؤں تک جھوٹ اور فریب کا جامہ پہنے ہے‘‘ (فتاوی رضویہ،ج23،ص494،رضا فاؤنڈیشن لاہور)

    رہی بات ایسے شخص کو کمپنی کے  اسٹیکر بنا کر دینا جس کے بارے میں معلوم ہے کہ یوں دو نمبر کام کرے گا تو یاد رہے کہ  مذکورہ اسٹیکر تیار کر کے اسے دینے کی اجازت نہیں کہ یہ اس کے دھوکے وغیرہ میں معاونت ہے اور گناہ کے کام میں معاون و مددگار بننا بھی گناہ ہے ۔

   رہی یہ بات کہ خریدار کو یہ بتا دینا کہ یہ اصل نہیں بلکہ ڈپلیکیٹ ہے تو اس کا  فی نفسہ یہ بیچنا جائز  ہو جائے گا ، مگر اس میں یہ  خرابیاں مثلاکمپنی کی حق تلفی، غیر قانونی ہونا وغیرہ باقی رہیں گی لہذا یہ کام کرنے کی ہی  اجازت نہیں ۔

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم