Lottery Ke Zariye Kharid o Farokht?‎

لاٹری کے ذریعے خرید و فروخت

مجیب:مفتی علی اصغرصاحب مدظلہ العالی

فتوی نمبر:gul:1572

تاریخ اجراء:17جمادی الاولیٰ1440ھ/24جنوری2019ء

دَارُالاِفْتَاء اَہْلسُنَّت

(دعوت اسلامی)

سوال

     کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارےمیں کہ آج کل دوکان داروں کے ہاں مختلف قسم کی لاٹری رائج ہے، ان میں سے ایک کا طریقہ کار یہ ہے کہ دوکانداروں کے پاس ایک چھوٹا سا پیکٹ ہوتا ہے، جس میں مختلف اشیاء ہوتی ہیں، لیکن یہ معلوم نہیں  کہ وہ کیا ہیں ۔ مثلاً کسی پیکٹ میں غبارے ، تو کسی میں کوئی کھانے کی چیز اور کسی میں کوئی کھلونا وغیرہ۔ اس پیکٹ کی قیمت پانچ روپے ہوتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس طرح کے پیکٹ کی خرید و فروخت کرنا کیسا ہے؟

سائل: محمد امجد (گلزار طیبہ، سرگودھا)

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

     قوانین شرع کی رو سے جو چیز خریدی جا رہی ہے ، اس کے بارے میں متعین طو پر علم ہونا ضروری ہے کہ وہ ہے کیا ؟مجہول چیز کو خریدنا ، جائز نہیں ، بلکہ ایسی خرید و فروخت فاسد ہوتی ہے ۔پوچھی گئی صورت میں بند پیکٹ میں کیا ہے ، خریدتے  وقت نہ  خریدارکو معلوم ہوتا ہے اور نہ ہی دکاندار بتاتا ہے ، بلکہ ممکن ہے اسے بھی معلوم نہ ہو ، لہٰذا  سوال میں درج پروڈکٹ خریدنا ، ناجائز و گناہ ہے۔

     بیع کے صحیح ہونے کی شرائط بیان کرتے ہوئے تنویر الابصار مع درمختار میں ہے:(وشرط لصحتہ معرفۃ قدر ) مبیع وثمنیعنی  خرید و فروخت کے صحیح ہونے کے لئے ثمن اور مبیع کی مقدار معلوم ہونا شرط ہے۔ (تنویر الابصار مع الدرالمختار متن ردالمحتار، جلد7، صفحہ46، کوئٹہ)

     بیع فاسد کی صورتیں بیان کرتے ہوئے فقہ حنفی کی معروف کتاب الاختیار لتعلیل المختار میں ہے: واماثوب من ثوبین فلجھالۃ المبیعیعنی دو کپڑوں میں سے ایک غیر معین کپڑے کو بیچنا ، جہالت کی وجہ سے بیع فاسد ہے۔ (الاختیار لتعلیل المختار، جلد2، صفحہ53، بیروت)

     المبسوط میں ہے: وجھالۃ المبیع فیما یتفاوت یمنع صحۃ العقدیعنی جب مبیع میں بہت  زیادہ جہالت ہو، تو یہ عقد کے صحیح ہونے کے مانع ہے۔(المبسوط، جلد13، صفحہ55، بیروت)

     بیع کی شرائط بیان کرتے ہوئے بہار شریعت میں ہے: ”مبیع و ثمن دونوں اس طرح معلوم ہوں کہ نزاع پیدا نہ ہوسکے۔ اگر مجہول ہوں کہ نزاع ہو سکتی ہو، تو بیع صحیح نہیں ۔ مثلا اس ریوڑ میں سے ایک بکری بیچی یا اس چیز کو واجبی دام  پر بیچا یا اس قیمت پر جو فلاں شخص بتائے۔“(بہار شریعت، جلد2، حصہ11، صفحہ617، مکتبۃ المدینہ)

وَاللہُ اَعْلَمُعَزَّوَجَلَّوَرَسُوْلُہ اَعْلَمصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم