Mahana Qist Mein Kami Karne Par Qeemat Barha Dena Kaisa ?

ماہانہ قسط میں کمی کرنے پر قیمت بڑھا دینا کیسا ؟

مجیب: ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری مدنی

فتوی نمبر: Nor-12599

تاریخ اجراء: 20جمادی الاولیٰ1444 ھ/15دسمبر2022   ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ زید نے  ایک گاڑی پندرہ ہزار روپے ماہانہ قسط پر آٹھ لاکھ میں خریدی مگر کچھ ہی مہینوں کے بعد زید نے بائع (بیچنے والے ) سے یہ درخواست کی کہ میرے لیے پندرہ ہزار ماہانہ ادا کرنا دشوار ہے۔ اگر تم ماہانہ قسط پندرہ ہزار کے بجائے دس ہزار کر دو  تو میرے لیے ادائیگی آسان ہوجائے گی۔ اس سہولت پر میں آٹھ لاکھ کے بجائے ساڑھے آٹھ لاکھ روپے کی ادا ئیگی کروں گا۔ معلوم یہ کرنا ہے کہ بائع کا اس پیشکش کو قبول کرنا جائز ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   پوچھی گئی صورت میں بائع(بیچنے والے )  پر لازم ہے کہ وہ گاڑی کی طے شدہ قیمت آٹھ لاکھ روپے ہی زید سے وصول کرے ، اس سے ایک روپیہ بھی اوپر وصول کرے گا تو یہ مدت کے بڑھ جانے کا عوض ہوگا جو کہ سود ہے اور  سود کی شدید مذمت قرآن و حدیث میں مذکور ہے۔ نیز زید پر بھی لازم ہے کہ اس نے بائع کو جو سودی پیشکش کی ہے اس گناہ سے توبہ کرے اور آئندہ اس معاملے میں احتیاط سے کام لے۔

   سود کی حرمت پر  ارشادِ باری تعالیٰ ہے:”﴿وَ اَحَلَّ اللّٰهُ الْبَیْعَ وَ حَرَّمَ الرِّبٰواؕ﴾“ترجمہ کنزالایمان:”اور اللہ نے حلال کیا بیع اور حرام کیا سُود۔(القرآن الکریم،پارہ03،سورۃ البقرۃ،آیت:275)

   مذکورہ بالا آیتِ مبارکہ کے تحت تفسیرِ خزائن العرفان میں ہے: ”سود کو حرام فرمانے میں بہت حکمتیں ہیں بعض ان میں سے یہ ہیں کہ سود میں جو زیادتی لی جاتی ہے وہ معاوضہ مالیہ میں ایک مقدار مال کا بغیر بدل و عوض کے لینا ہے یہ صریح ناانصافی ہے۔ “(تفسیرِ خزائن العرفان، ص96، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

   مذکورہ بالا آیتِ مبارکہ کے تحت تفسیرِ بغوی میں ہے: ”أن أهل الجاهلية كان أحدهم إذا حل ماله على غريمه فطالبه به فيقول الغريم لصاحب الحق: زدني في الأجل حتى أزيدك في المال، فيفعلان ذلك ويقولون  سواء علينا الزيادة في أول البيع بالربح أو عند المحل لأجل التأخير، فكذبهم الله تعالى فقال: وأحل الله البيع وحرم الربا۔ “ یعنی زمانہ جاہلیت میں جب کسی شخص کی قرض کی مدت پوری ہوجاتی تو وہ اپنے مقروض سے قرض کا مطالبہ کرتا تو مقروض اپنے قرض خواہ سے کہتا کہ میرے لیے مدت میں اضافہ کردو  تو میں تمہیں مال بڑھا کر واپس کروں گا۔ پس وہ دونوں اسی طرح کیا کرتے تھے اور کہتے تھے کہ ہم پر برابر ہے کہ یہ زیادتی سودے کے شروع ہی میں نفع کے ساتھ طے ہو یا پھر بعد میں اضافہ کیا جائے۔ اس پر اللہ عزوجل نے ان کی تکذیب فرمائی اور ارشاد فرمایا کہ "اللہ نے حلال کیا بیع اور حرام کیا سُود۔" (تفسير البغوی، ج 01، ص 382-381، دار احیاء التراث، بیروت)

   ارشادِ باری تعالیٰ”وَ ذَرُوْا مَا بَقِیَ مِنَ الرِّبٰۤوا“ کے تحت حجۃ الاسلام امام ابوبکر احمد بن علی رازی جصاص حنفی علیہ رحمۃ اللہ القوی لکھتے ہیں: ”حظر أن یؤخذ  للأجل عوض ۔۔۔ولا خلاف انہ لو کان علیہ الف درھم حالۃ فقال لہ اجلنی و ازیدک فیھا مائۃ درھم لا یجوز لان المائۃ عوض من الاجل ۔“ یعنی: مدت کے بدلے میں معاوضہ لینا منع ہے ۔۔۔اوراس بات میں کوئی اختلاف نہیں کہ اگر کسی پر ہزار درہم دَین ہو جس کی میعاد پوری ہو چکی اور مدیون دائن سے کہے کہ مجھے مزید مہلت دے دو ،  میں سو درہم زیادہ دوں گا، یہ جائز نہیں کیونکہ یہاں  سو درہم مدت کے عوض میں ہیں(اورمدت کا عوض لینا جائز نہیں ہے)۔(احکام القرآن للجصاص، ج02، ص186، دار احیاء التراث العربی)

   ادھار سودے میں مدت بڑھانے کے عوض ملنے والا اضافہ سود ہے۔ جیسا کہ النتف فی الفتاوی میں ہے:” ان يبيع رجلا متاعا بالنسيئة فلما حل الاجل طالبه رب الدين فقال المديون زدني في الاجل ازدك في الدراهم ففعل فان ذلك ربا۔“یعنی ایک شخص نے ادھار سامان بیچا جب ادھار کی مدت پوری ہوگئی دائن نے مدیون سے دین کا مطالبہ کیا مدیون نے دائن سے کہا کہ مجھے مزید مہلت دے دو میں دراھم بڑھا دوں گا یہ زیادتی سود ہے۔ (النتف فی الفتاوی ،ص 485،مؤسسۃ الرسالہ ،بیروت)

   شمس الائمۃ  محمد بن احمدالسرخسی علیہ الرحمہ ”المبسوط“ میں لکھتے ہیں :”مقابلة الأجل بالدراهم ربا، ألا ترى أن في الدين الحال لو زاده في المال ليؤجله لم يجز۔“ یعنی مدت کے مقابلے میں دراھم لینا سود ہے۔  کیا تو نہیں دیکھتا کہ دین حال میں اگر مدیون نے مال میں زیادتی کردی تاکہ دائن اسے مزید مدت دے تویہ جائز نہیں ہے۔(المبسوط، باب العیوب فی البیع، ج13،ص126،دار المعرفۃ)

بہارِ شریعت میں ہے :” عقدِ معاوضہ میں جب دونوں طر ف مال ہو اورایک طرف زیادتی ہوکہ اس کے مقابل میں دوسری طرف کچھ نہ ہو یہ سود ہے۔ “(بہارِ شریعت،ج02،ص769-768،مکتبۃ المدینہ، کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم