Najaiz Shart Par Ghar Bechne Ka Hukum?‎

ناجائز شرط پر گھر بیچنے کا حکم

مجیب:مولاناعبدالرب شاکرصاحب زید مجدہ

مصدق:مفتی قاسم صاحب مدظلہ العالی

فتوی نمبر:sar:6406

تاریخ اجراء:17صفرالمظفر1440ھ/27اکتوبر2018ء

دَارُالاِفْتَاء اَہْلسُنَّت

(دعوت اسلامی)

سوال

     کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ زیدنےبکرکے ساتھ اس طرح معاہدہ کیاکہ زیدنے بکرکوپچاس لاکھ روپے کااپناگھرفروخت کیا ، اس شرط پرکہ جب میرے پاس پیسے ہوں گے، تومیں تمہیں پچاس لاکھ دے کر اپناگھرلے لوں گا اورجب تک میں تمہیں پیسے دے کرگھرواپس نہیں لیتا ،تب تک تم اس گھرمیں رہ سکتے ہو۔سوال یہ ہے کہ زیداوربکرکے درمیان ہونے والایہ معاہدہ ، شرعاً جائز ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

     دریافت کی گئی صورت میں زیداوربکرکامعاہدہ کرنا، ناجائزوگناہ ہے،کیونکہ سوال میں ذکرکردہ معاہدے کی صورت بیع وفا(جب بیچنے والاخریدارکوپیسے واپس کرے گا ، توخریداربیچنے والے کی چیزواپس کردے گا)کی ہے اوربیع وفا رہن کےحکم میں ہےاوررہن سے نفع حاصل کرنا ، ناجائز ، حرام ،سودوگناہ ہے۔نیزاگراس معاہدے کو عقدِبیع تسلیم بھی کرلیاجائے ،توبھی یہ معاہدہ فاسد،ناجائزوگناہ ہے،کیونکہ بیع میں ایسی شرط لگانا ، جوبیچنے والے یاخریدنے والے میں سے کسی کے لیے مفیدہو ، مگراس پرعرف جاری نہ ہو ، تووہ شرط عقد کوفاسدکردیتی ہےاورچونکہ صورتِ مسئولہ میں یہ شرط”جب پیسے دوں گا ، توگھرواپس لے لوں گا “بیچنے والے کے حق میں مفیدہے ، لہٰذا بیع فاسدہوئی،جسے ختم کرنا فریقین میں سے ہرایک پرواجب ہے۔

     بیع وفا کی تعریف کرتے ہوئے علامہ محمدامین ابن عابدین شامی قدس سرہ السامی لکھتے ہیں : ان یرد المبیع علی البائع  حین رد الثمن یعنی: جب بائع مشتری کوثمن واپس کرے ، تومشتری مبیع کو واپس کردے۔(ردالمحتار،ج7،ص580،مطبوعہ کوئٹہ)

     بیع وفا کے رہن کے حکم میں ہونے کے بارے میں امام اہلسنت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن ارشاد فرماتے ہیں : ” صحیح ومعتمد مذہب میں بیع وفاء بیع نہیں ، رہن  ہے ۔ مشتری مرتہن کو رہن سے نفع حاصل کرنا حرام  ہے۔“(فتاوی رضویہ،ج17،ص91،مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن)

     صدرالشریعہ مفتی محمدامجدعلی اعظمی علیہ رحمۃ اللہ القوی لکھتے ہیں:” بیع الوفاحقیقت میں رہن ہے ۔ لوگوں نے رہن کے منافع کھانے کی یہ ترکیب نکالی ہے ۔۔۔ اوراگراس کوبیع بھی قراردیاجائے،جیساکہ اس کانام ظاہرکرتاہے اورخودعاقدین بھی عموماً لفظِ بیع ہی سے عقد کرتے ہیں ، تویہ شرط کہ ثمن واپس کرنے پرمبیع کوواپس کرناہوگا ، یہ شرط بائع کے لیے مفیدہے اورمقتضائے عقدکے خلاف ہے اورایسی شرط بیع کوفاسدکرتی ہے ۔ جیسا کہ معلوم ہوچکاہے ۔  اس صورت میں بھی بائع ومشتری دونوں گنہگاربھی ہوں گےاورمبیع کے منافع مشتری کے لیے حلال نہ ہوں گے۔“ (بھارشریعت،ج02،ص835،مطبوعہ مکتبۃ المدینہ،کراچی)

     رہن سے نفع اٹھانے کے سودہونے کے بارے میں مصنف عبد الرزاق میں ہے:عن ابن سيرين قال: جاء رجل إلى ابن مسعود فقال: إن رجلا رهنني فرسا فركبتها قال: ما أصبت من ظهرها فهو رباترجمہ:امام ابن سیرین کابیان ہے کہ ایک شخص حضرت عبداللہ بن مسعودرضی اللہ تعالی عنہ کے پاس آیااورکہاکہ کسی بندےنے مجھے گھوڑارہن کے طورپردیاتھا،اس پرمیں نے سواری کی ۔ حضرت عبداللہ بن مسعودرضی اللہ تعالی عنہ نے جواب دیاکہ جوتم نے گھوڑے کی سواری سے نفع اٹھایا،وہ سودہے۔(مصنف عبدالرزاق،ج08،ص245،مطبوعہ مکتبہ اسلامی،بیروت)

     ردالمحتارمیں ہے:عن عبدﷲ بن محمد بن اسلم السمرقندی وکان من کبارعلماء سمرقندأنہ لایحل لہ ان ینتفع بشیء منہ بوجہ من الوجوہ وان اذن لہ الراھن لانہ اذن لہ فی الربا، لانہ یستوفی دینہ کاملافتبقی لہ المنفعۃ فضلافیکون رباترجمہ : عبد اللہ بن محمد بن اسلم سمرقندی سے منقول ہے ، جو سمرقند کے بڑے علماء میں سے ایک تھے کہ مرتہن کو مرہون سے کسی طور پر بھی نفع اٹھانا ، جائز نہیں اگرچہ راہن نے اس کی اجازت دی ہو ، کیونکہ یہ سُود کی اجازت ہے ، اس لیے کہ مرتہن اپنا قرض پورا وصول کرتا ہے اور منفعت اسے اضافی ملتی ہے ۔ پس یہ منفعت سود ہے ۔(ردالمحتار،کتاب الرھن،ج10،ص86،مطبوعہ کوئٹہ)

وَاللہُ اَعْلَمُعَزَّوَجَلَّوَرَسُوْلُہ اَعْلَمصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم