Network Marketing Ka Sharai Hukum

نیٹ ورک مارکیٹنگ کا شرعی حکم

مجیب: محمد ساجد  عطاری

مصدق: مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر: UK-78

تاریخ اجراء:       13 رمضان المبارک1443 ھ/15 اپریل  2022 ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ  کیا نیٹ ورک مارکیٹنگ جائز ہے یا نہیں؟اور اس کا ممبر بننا کیسا ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   نیٹ ورک مارکیٹنگ کرنے والی کمپنیوں  کا ممبر بنناحرام حرام اور سخت حرام ہے ،کیونکہ شروع سے آخر تک سارا طریقہ کار اسلامی اصولوں کے خلاف اور کئی قسم کے مفاسد و گناہ، مثلاً: جوا ،رشوت، ضرر میں پڑنا اور دوسروں کو ڈالنا اورشروط فاسدہ وغیرہ پر مشتمل ہوتا  ہے ۔اس کا مختصر تعارف اور اس میں پائی جانے والی شرعی خرابیوں کی کچھ  تفصیل درج ذیل ہے:

نیٹ ورک مارکیٹنگ کا تعارف:

·              نیٹ ورک مارکیٹنگ  کوملٹی لیول مارکیٹنگ (MultiLevel Marketing) بھی کہتے ہیں۔ مصنوعات فروخت کرنے کے اس طریقہ کار میں  ایک آدمی پہلے  کمپنی کا ممبر بنتا ہے اور کمپنی سے اس کی مصنوعات خریدتا ہے۔ پھر وہ اپنی کوشش سے مزید دو  افراد کوممبر بناتا ہے اور یہ دونوں بھی کمپنی سے خریداری کرتے ہیں اور ان دونوں میں سے ہر ایک پھر آگے دو دو افراد کو ممبر بناتے ہیں ۔ یوں ہر ممبر اپنی کوشش سے مزید دو دو ممبر بناتا ہے اور نیچے ایک چین اور نیٹ ورک بنتا جاتا ہے۔

·              ہر شخص جو دو افراد کو ممبر بناتا ہے، تو کمپنی اس شخص کو ممبر بنانےکا مخصوص  کمیشن  دیتی ہے ۔ یہ کمیشن  ممبر بنانے والے فرد کے علاوہ اس سے اوپر والے افراد کو بھی ملتا  ہے،مثلا: پہلے ممبر نے صرف دو ممبر خود بنائے تھے، لیکن  دوسرے تیسرے اور چوتھے مراحل میں بنے ہوئے  ممبروں کا کمیشن  بھی اس پہلے فرد کو ملتا رہے گا ۔البتہ کمیشن اسی وقت ملتا ہے، جب ممبر بننے  والا فرد مخصوص مقدار میں خریداری بھی کرے۔

·              کمپنی کا ممبر بننے کے لیے عموماً کچھ نہ کچھ رجسٹریشن فیس  دینی پڑتی ہے۔ نیز مخصوص مقدار میں کمپنی کی  چیزیں خریدنی ہوتی ہیں۔ اس کے بغیر کوئی بھی ممبر نہیں بن سکتااور بعض اوقات کمیشن حاصل  کرنے  کے لیے بھی ہرماہ  یا  ہر سال کچھ خریداری  کرنا شرط  ہوتا ہے۔

·              ایسی کمپنیوں کے طریقہ کار کا بنیادی ڈھانچہ یہی ہوتا ہے، جو اوپر بیان ہوا ،البتہ ضمنی کچھ چیزوں اور شرائط میں تھوڑا بہت فرق ہوتا ہے۔عموما اس طرح کی کمپنیاں نام بدل بدل کر تھوڑے تھوڑے عرصے کے لیے کام کرتی ہیں ، مال کماتی ہیں اور پھر غائب ہو جاتی ہیں اور نیٹ  ورک  مارکیٹنگ پر کئی ممالک میں پابندی بھی ہےاورحکومت پاکستان بھی  اس کے خلاف کئی باروارننگ/ تنبیہ  جاری کرچکی  ہے ۔

   نیٹ ورک مارکیٹنگ کی شرعی خرابیاں:

   اس نظام  میں بہت سی شرعی خرابیاں ہیں جن کا مختصر تذکرہ درج ذیل ہے:

   (1)رشوت:

   کمپنی کا ممبر بننے کے لیے سب سے پہلے  رجسٹریشن فیس کے نام پر رقم  دینی پڑتی ہے اور دینے والے کا مقصد اپنا کام نکالنا ہوتا ہے  کہ وہ اس کے بدلے میں اپنے آپ کو کمپنی کا ممبر بنانا چاہتا ہے اور شرعی طور پر اپنا کام بنانے کے لیے صاحبِ امر کو کچھ دینا رشوت کہلاتا ہے، جیسا کہ فتاوی رضویہ ،جلد23، صفحہ597سے ماخوذ ہے۔نیز فقیہِ عصر حضرت مولانامفتی نظام الدین رضوی دام ظلہ العالی اسی طرح کی کمپنیوں کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے لکھتے ہیں:’’اس کے ناجائز ہونے کی چوتھی وجہ یہ ہے کہ فیس کی شرعی حیثیت رشوت کی ہے جو یقینا حرام ہے ، وجہ یہ ہے کہ اپنا یا کسی کا بھی کام بنانے کے لیے ابتداء ً صاحبِ امر کو کچھ روپے وغیرہ دینا رشوت ہے اور یہاں کمپنی کو فیس اس لیے دی جاتی ہے کہ اسے اجرت پر ممبر سازی کا حق دے دیا جائے اورفیس کے مقابل کوئی چیز نہیں ہوتی ۔ ‘‘ (ماہنامہ اشرفیہ، شمارہ مئی2008ء، ص38)

   اور رشوت دینا یا لینا حرام ا ور جہنم میں لے جانے والا کام ہے، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں ’’الراشی والمرتشی فی النار‘‘ترجمہ: رشوت دینے والا اور رشوت لینے والا دونوں جہنمی ہیں۔( المعجم الاوسط ، ج2، ص295، دار الحرمین، قاھرہ)

   (2) قمار(جُوا) :    

   عموماً خریدار  کو کمپنی کی مصنوعات میں رغبت نہیں ہوتی،بلکہ ممبر سازی و کمیشن  کا حق دار بننے کے لیے یہ خریداری کرتا ہے اور اس کے لیے وہ کمپنی  کی سستے معیار کی چیزیں بھی غبن فاحش کی حدتک مہنگی خریدنے کو تیار ہو جاتا ہے اور اسی مقصد کے لیے وہ شروع میں رجسٹریشن کی فیس بھی دیتا ہے،  حالانکہ کوئی بھی عقلمند شخص جو ممبرسازی کا ذہن نہیں رکھتا وہ اپنا سرمایہ ایسی جگہوں پر کبھی نہیں لگاتا۔

   تو حاصل یہ ہے  کہ کمیشن حاصل کرنے کی لالچ میں خریدار ، ممبر شپ کی فیس اور انتہائی مہنگی چیزیں خریدنے کی شکل  میں اپنا کثیر  سرمایہ  داؤ (Risk)پر لگا ديتا ہے ،جبکہ  آئندہ مطلوبہ شرائط کے مطابق ممبر بنا لینا اور کمیشن کا فائدہ پانا صرف ایک موہوم امید کی حدتک ہوتا ہے ،جس میں تقریبا نوے فیصد افراد ناکام رہتے ہیں، تو یوں لالچ میں اپنی رقم داؤ پر لگانا  قمار (جُوے بازی )کے معنی میں ہے کہ امید موہوم پر پانسا ڈال دیا اب فائدہ بھی ہو سکتا ہے اور  نقصان بھی اور قمار بھی اسی چیز کا نام ہے جو حرام ہے ۔

   اللہ عزوجل ارشاد فرماتا ہے: ” یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِنَّمَا الْخَمْرُ وَ الْمَیْسِرُ وَ الْاَنْصَابُ وَ الْاَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّیْطٰنِ فَاجْتَنِبُوْهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ “ترجمہ کنز العرفان:’’اے ایمان والو! شراب اور جوا اور بت اور قسمت معلوم کرنے کے تیر ناپاک شیطانی کام ہی ہیں، تو ان سے بچتے رہو تاکہ تم فلاح پاؤ۔‘‘(سورۃ المائدۃ، آیت 90)

    امام اہلسنت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن اس سے ملتی جلتی ایک صورت کہ جس میں ایک (بے قیمت) ٹکٹ خریدنا پڑتا تھا ، کے بارے میں ارشاد فرماتے ہیں:” حقیقت دیکھئے تو معاملہ مذکورہ بنظر مقاصد ٹکٹ فروش و ٹکٹ خراں ہر گز بیع و شراوغیرہ کوئی عقد شرعی نہیں،بلکہ صرف طمع کے جال میں لوگوں کو پھانسنا اور ایک امید موہوم پر پانسا ڈالنا ہے اور یہی قمار ہے۔‘‘(فتاوی رضویہ، ج17، ص330، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

   اور اسی  طرح کی صورت کے بارے میں حضرت صدر الشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ  لکھتے ہیں : ’’یہ جوا اور حرام ہے کہ ایک روپیہ دیکر اس رقم کثیر کے ملنے کی خواہش ہوتی ہے اور اس کے ملنے نہ ملنے دونوں کا احتمال ہوتاہے ، اگر فارم فروخت ہو گئے ،تو رقم ملے گی ورنہ روپیہ گیا ، اس میں شرکت حرام ہے ۔“ (فتاوی امجدیہ، ج4، ص234، مکتبہ رضویہ، کراچی)

   جید مفتیان کرام و معتمد علماء پر مشتمل مجلس شرعی اشرفیہ  نے اس موضوع سے متعلق اپنے فیصلہ میں لکھا:”آئندہ ممبر بنا لینا اور کمیشن کا فائدہ پانا محض ایک امید موہوم ہے ۔ نوے فیصد لوگ اس میں ناکام رہتے ہیں،  تو یہ ایک طرح کی جوے بازی ہے جس میں فائدہ اور نقصان  دونوں کا خطرہ لگا رہتا ہے ۔ جوے بازی بھی ناجائز و حرام ہے۔“ (مجلس شرعی کے فیصلے،ج 1،ص326، مطبوعہ دار النعمان)

   (3) ضرر و اضرار(یعنی نقصان میں پڑنا اور ڈالنا)اور  دھوکا دہی:

   ایسی کمپنیوں کی اشیاء عموما اپنے معیار کے لحاظ سے کم دام کی ہوتی ہیں، لیکن عام خریدار جنہیں اس  کی پرکھ نہیں ہوتی  انہیں یہ چیزیں  بہت اعلی  معیار (High Quality) اورزیادہ  دام کی ظاہر کر کے غبن فاحش کی حد تک مہنگا  بیچا جاتا ہے ،جو دھوکا اور مسلمان کو نقصان میں ڈالنے کی وجہ سے حرام ہے ۔حدیث پاک میں ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:”من غش فلیس منی“ترجمہ:جو دھوکا دے وہ مجھ سے نہیں ۔    (صحیح مسلم ،کتاب الایمان ،ج1،ص99،دار احیاء التراث العربی ،بیروت)

   اور کمیشن کے لالچ میں کم داموں والی چیزیں غبن فاحش کی حد تک مہنگی خرید لینا اپنا نقصان بھی ہے ۔ خودضرر ( نقصان )میں پڑنا اور دوسروں کو ضرر میں  ڈالنادونوں اسلامی تعلیمات کے بالکل خلاف ہے، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم فرماتے ہیں:’’لاضرر ولاضرار فی الاسلام ‘‘ترجمہ: اسلام میں نہ ضررہے، نہ دوسرے کو ضرر دینا

۔ (المعجم الاوسط ، ج5، ص283، دار الحرمین، قاھرہ)

   (4) شروط فاسدہ:

   اس نظام میں شامل ہونے والا فرد کمپنی کے ساتھ دو طرح کا عقد /معاہدہ کرتا ہے۔(1)عقد بیع: یعنی وہ  کمپنی کی مصنوعات خریدتا ہے۔ (2) عقد اجارہ :یعنی وہ لوگوں کو  کمپنی کا ممبر بنوانے کے بدلے میں کمیشن حاصل کرتا ہے۔

لیکن یہ دونوں عقد ایک دوسرے کے ساتھ مشروط ہوتے ہیں، وہ یوں کہ کمپنی ممبر سازی کا حق دینے کےلیے خریداری کرنے کی  شرط رکھتی ہے یہ ”اجارہ بشرط بیع “ہےاور خریدار کی طرف سے گویا خریداری  اس شرط پر ہوتی ہے کہ اس کی بنیاد پر اسے ممبر سازی کا حق ملے گا۔  یہ ”بیع بشرط اجارہ “ہےاور بیع میں اجارے کی شرط یا اجارے میں بیع کی شرط لگانا ،جائز نہیں ہے۔حضرت عمرو بن شعیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں:’’أن النبی صلی اللہ علیہ وسلم نھی عن بیع وشرط‘‘ ترجمہ:کہ نبی اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے خریداری اور شرط سے منع فرمایا ہے۔ (المعجم الاوسط للطبرانی، باب العین ، من اسمہ عبد اللہ، ج4،ص335،مطبوعہ دار الحرمین، قاھرہ)

   فتاوی عالمگیری میں ہے: ’’ولو قال أبیعک ھذا بثلثمائۃ علی أن یخدمنی سنۃ کان فاسدا لأن ھذا بیع شرط فیہ الإجارۃ  مختصرا  ‘‘ترجمہ:اگر کسی نے کہامیں نے یہ (غلام) تجھے تین سو کے بدلے اس شرط پر فروخت کیا کہ یہ ایک سال تک میری خدمت کرے گا ،تو یہ بیع فاسد ہے ،کیونکہ یہ ایسی بیع ہے، جس میں اجارہ کی شرط لگائی ہے ۔

(عالمگیری،کتاب البیوع، الباب العاشر، ج3،ص135، دار الفکر ، بیروت)

   تنویر الابصار اور بحر الرائق ،ج7، ص311وغیرہ میں ہے، واللفظ للاول:’’تفسد الإجارۃ بالشروط المخالفۃ لمقتضی العقد‘‘ترجمہ: مقتضائے عقد کے خلاف شرائط لگانے سے اجارہ فاسد ہو جاتا ہے ۔ (تنویر الابصار ، کتاب الاجارہ، ج6،ص46، دار الفکر، بیروت)

   (5)خلاف شرع کمیشن کا طریقہ کار:

   ناجائز ہونے کی ایک اور وجہ کمیشن کے  طریقہ کار  کا فقہی قوانین شرعیہ  کے خلاف  ہونا بھی  ہے ،کیونکہ کمیشن ایجنٹ اس وقت کمیشن یا اجرت کا مستحق ہوتا ہے، جب وہ گاہک لانےمیں قابل معاوضہ کام اور محنت و کوشش کرے ۔ اگر اس نے ایسا کام نہ کیا، تو اسے کمیشن لینے کا حق نہیں اگرچہ اس نے دو چار باتیں کر کے کسی کو تیار کر لیا ہو۔  

   امام اہلسنت احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن ایک سوال کے جواب میں فرماتے ہیں:’’ اگر کارندہ نے اس بارہ میں جو محنت و کوشش کی وہ اپنے آقا کی طرف سے تھی، بائع کے لیے کوئی دوا دوش نہ کی، اگرچہ بعض زبانی باتیں اس کی طرف سے بھی کی ہوں، مثلا :آقا کو مشورہ دیا کہ یہ چیز اچھی ہے، خرید لینی چاہیے یا اس میں آپ کا نقصان نہیں اور مجھے اتنے روپے مل جائیں گے ، اس نے خرید لی جب تو یہ شخص عمرو بائع سے کسی اجرت کا مستحق نہیں کہ اجرت آنے جانے ، محنت کرنے کی ہوتی ہے، نہ بیٹھے بیٹھے دو چار باتیں کہنے، صلاح بتانے، مشورہ دینے کی۔‘‘(فتاوی رضویہ ،ج19، ص 453، رضا فاؤنڈیشن ،لاھور)

   یونہی جس آدمی کو ممبر بنانے کے لیے اس نے محنت نہیں کی ،بلکہ کسی دوسرے فرد نے کی ہے، تو اس کا  کمیشن وہ دوسرا فرد ہی لے سکتا ہے، پہلا فرد جس نے کوئی محنت نہیں کی اس کو کمیشن کا مستحق نہیں بنایا جا سکتا، مثلا: زید نے  بکر کوقابل معاوضہ محنت کر کے ممبر بنوا دیا اور  پھر بکر نے بھی اسی طرح خالد کوممبر بنوا دیا،تو شرعی طور پر زید ، بکر کے ممبر بننے کا  کمیشن لے سکتا ہے،لیکن خالد  کے ممبر بننے کا  کمیشن نہیں لےسکتا ۔

   لیکن  ملٹی لیول مارکیٹنگ میں کمیشن دینے کا طریقہ اس شرعی ضابطے کے  متصادم و خلاف ہونے کی وجہ سے ناجائز ہے۔

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم