Over Billing Karna Jaiz Hai Ya Nahi ?

اوور بلنگ کرنا جائز ہے یا نہیں؟

مجیب:مفتی ھاشم صاحب مدظلہ العالی

فتوی نمبر:Lar:6730

تاریخ اجراء:16ذوالقعدۃالحرام1438ھ/09اگست2017ء

دَارُالاِفْتَاء اَہْلسُنَّت

(دعوت اسلامی)

سوال

    کیافرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس بارے میں کہ زیدایک فیکٹری میں مال سپلائی کرتاہے ، فیکٹری کامنشی بکراووربلنگ کا مطالبہ کرتا ہے ،اووربلنگ کرناجائزہے یانہیں ؟

    نوٹ:اووربلنگ اس طرح ہوتی ہے کہ جس چیزکی اصل قیمت 15 روپے ہے،بل میں اُس کی قیمت20روپے لکھی جائے،منشی بل میں لکھی قیمت ظاہرکرکے20روپے کے حساب سے مالک سے پیسے وصول کرے گا اورزیدکو15روپے کے حساب سے دےکراوپرکے 5روپے بکرخودرکھ لے گا۔

سائل:محمدعثمان(بادامی باغ،مرکزالاولیاء،لاہور)

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

    اووربلنگ کرنا اور کرواناجائزنہیں اوراس کے ناجائزوحرام ہونے کی مندرجہ ذیل وجوہات ہیں:

    (1)اووربلنگ جھوٹ پر مشتمل ہے اورجھوٹ کے بارے میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتاہے:

﴿ لَعْنَتَ اللہِ عَلَی الْکٰذِبِیۡنَ﴾ یعنی جھوٹوں پر اللہ کی لعنت ہے۔ (آل عمرآن،آیت 61)

    جھوٹ منافقت کی علامت ہے چنانچہ حدیث پاک میں ہے:”ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال:”آیۃ المنافق ثلاث اذا حدث کذب واذا وعد اخلف واذا ائتمن خان“ ترجمہ:بیشک نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا:منافق کی تین علامتیں ہیں:(1)جب بات کرے تو جھوٹ بولے(2)جب وہ وعدہ کرے تو خلاف ورزی کرے(3)جب امانت اس کے سپر د کی جائے تو خیانت کرے ۔

(صحیح مسلم،کتاب الایمان،جلد01،صفحہ56،کراچی)

    (2)اس میں دھوکہ دینابھی پایاجاتاہے اوردھوکے کے بارے میں اللہ رب العزت ارشادفرماتاہے: ﴿ یُخٰدِعُوۡنَ اللہَ وَالَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا ۚ وَمَا یَخْدَعُوۡنَ اِلا اَنۡفُسَہُمۡ وَمَا یَشْعُرُوۡن﴾ترجمہ:فریب دیا چاہتے ہیں اللہ اور ایمان والوں کو اور حقیقت میں فریب نہیں دیتے مگر اپنی جانوں کو اور انہیں شعور نہیں۔(سورۃ البقرۃ،آیت 09)

    صحیح مسلم ،سنن ابن ماجہ ،سنن ابو داؤد ،مسند الحمیدی،مصنف ابن  ابی  شیبہ،مسنداحمد ،المعجم الاوسط،المعجم الکبیر لطبرانی،السنن الکبری للبیہقی  وغیر ہ کتب حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ وعلیہ وسلم کاارشاد ہے:”لیس منا من غشنا“وہ ہم میں سے نہیں جو ہمیں دھوکہ دے۔

(صحیح مسلم، جلد 1،صفحہ70،سنن ابی داؤد ، جلد2 ،صفحہ133،مطبوعہ،کراچی)

    جامع صغیر ،صحیح ابن حبان،المعجم الکبیر لطبرانی وغیرہ کتب حدیث میں حدیث مبارکہ ہے:"قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم من غشنا فلیس منا والمکروالخداع فی النار"ترجمہ:رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا:جس نے دھوکہ دیا وہ ہم میں سے نہیں اور مکرکرنے والا اور دھوکہ دینے والا دونوں جہنمی ہیں۔

(صحیح ابن حبان،12/369،مؤسسة الرسالة،المعجم الكبير،10/138،القاهرة، جامع الصغیر،جلد6،صفحہ241،مطبوعہ بیروت)

    فیض القدیر میں ہے :”والغش ستر حال الشئ“یعنی دھوکے سے مراد کسی شی کا اصل حال چھپاناہے۔

(فیض القدیر،جلد6،صفحہ240،مطبوعہ، بیروت)

    المحيط البرهانی فی الفقه النعمانی میں ہے”والغدرحرام“ترجمہ:اوردھوکہ دیناحرام ہے ۔

(المحيط البرهانی فی الفقه النعمانی،جلد2،صفحہ363،دارالكتب العلمية،بيروت)

    امام اہلسنت امام احمدرضاخان علیہ رحمۃ الرحمن فرماتے ہیں:”غدر(دھوکہ )مطلقاً حرام ہے نیز کسی قانونی جُرم کاارتکاب کرکے اپنے آپ کو بلاوجہ ذلت و بلاکے لئے پیش کرنا شرعاً بھی جرم ہے۔“

(فتاوی رضویہ ، جلد 23،صفحہ581 ، رضافاؤنڈیشن ،لاہور )

    (3)بکرکااضافی رقم یعنی 5 روپے خودرکھ لیناباطل طریقے سے مال کھانے کی وجہ سے حرام ہے چنانچہ قرآن پاک میں ارشادباری تعالی ہے:﴿یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَاۡکُلُوۡۤا اَمْوالَکُمْ بَیۡنَکُمْ بِالْباطِلِ اِلّا اَنۡ تَکُوۡنَ تِجارَۃً عَنۡ تَرَاضٍ مِّنۡکُمْ ۟﴾ترجمہ کنز الایمان: اے ایمان والو آپس میں ایک دوسرے کے مال ناحق نہ کھاؤ مگر یہ کہ کوئی سودا تمہاری باہمی رضا مندی کا ہو۔(سورۃ النساء،پارہ05،آیت29)

    امام اہلسنت امام احمدرضاخان علیہ رحمۃ الرحمن فرماتے ہیں :”غدر(دھوکہ )مطلقاً حرام ہے نیز کسی قانونی جُرم کاارتکاب کرکے اپنے آپ کو بلاوجہ ذلت و بلاکے لئے پیش کرنا شرعاً بھی جرم ہے۔“

(فتاوی رضویہ ، جلد 23،صفحہ581 ، رضافاؤنڈیشن ،لاہور )

    سنن الدارقطنی میں ہے”لایحل مال امرء مسلم الاعن طیب نفس“ترجمہ:کسی مسلمان کامال بغیراس کی رضاکے لیناحلال نہیں ہے ۔

(سنن الدارقطنی،ج3،ص424،مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت)

    ردالمحتار میں ہے”لایجوز لاحد من المسلمین اخذ مال احد بغیر سبب شرعی“ترجمہ: کسی مسلمان کے لئے یہ جائز نہیں کہ بغیر کسی سبب شرعی کے کسی کا مال لے۔

(ردالمحتار، کتاب الحدود باب التعزیر،ج3،ص178، داراحیاء التراث العربی، بیروت )

    (4)اووربلنگ  میں دھوکےاورباطل طریقے سے مال کھانے جیسے حرام کاموں پر تعاون کرناپایاجاتاہے جس سے اللہ عزوجل نے منع فرمایاہے:﴿ وَلَا تَعَاوَنُوۡا عَلَی الۡاِثْمِ وَالْعُدْوَانِ ﴾ترجمہ: اور گناہ اور زیادتی پر باہم مدد نہ دو۔(سورۃ المائد، سورت5،آیت2)

    مذکورہ آیت کی تفسیرمیں تفسیر خازن میں ہے ”ولا يعن بعضكم بعضا على الإثم “ترجمہ:اوربعض بعض کی گناہ کے کاموں پر مددنہ کریں ۔

(تفسیر خازن ،جلد2،صفحہ07،دار الکتب العلمیہ ،بیروت)

    امام اہلسنت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن ایک سوال کے جواب میں ارشاد فرماتے ہیں:”برتقدیر اول جبکہ یہ جانتا تھا کہ وہ نالش دروغ کے لئے کاغذ لیتاہے، تو اسے اس کے ہاتھ بیچنا معصیت پر اعانت کرنا ہوا جس طرح اہل فتنہ کے ہاتھ ہتھیار، اور معصیت پر اعانت خود ممنوع و معصیت ،قال اللہ عزوجل(اللہ تعالیٰ فرماتاہے )﴿ وَلَا تَعَاوَنُوۡا عَلَی الۡاِثْمِ وَالْعُدْوَانِ ﴾آپس میں ایک دوسرے کی مددنہ کرو گناہ اور حد سے بڑھنے پر۔“

(فتاوٰی رضویہ شریف،جلد17،صفحہ149،رضا فاؤنڈیشن،مرکزالاولیاء،لاہور)

وَاللہُ اَعْلَمُعَزَّوَجَلَّوَرَسُوْلُہ اَعْلَمصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم