Paak Pani Me Napak Pani Mil Jaye To Isay Bechna Kaisa?

پاک پانی  میں ناپاک پانی مل جائے، تو اسے بیچنا کیسا؟

مجیب: مفتی محمد  قاسم عطاری

فتوی نمبر: Sar-7641

تاریخ اجراء: 10   جمادی الاولی 1443ھ/15 دسمبر 2021

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

    کیافرماتےہیں علمائےدین  مفتیان شرع متین اس مسئلے کےبارےمیں کہ زید واٹر سپلائی کے ادارے میں کام کرتا ہے، ایک جگہ پانی جمع کرنے کا ایک بڑا تالاب ہے، جس کے قریب ہی ناپاک و گندہ پانی بھی جمع ہوتا ہے، جو کہ تالاب کے پانی میں مل جایا کرتا ہے، جس سے اس پانی کا رنگ بھی تبدیل ہو جاتا ہے، البتہ بو نہیں ہوتی، کیونکہ تالاب کا پانی بہت زیادہ ہے، لوگ اس پانی کو پینے کے لیے خریدتے ہیں، کیا اس پانی کو لوگوں کے لیے سپلائی کرنا درست ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   اگر پانی کے بڑے تالاب کے قریب نجس و گندہ پانی موجود ہو اور وہ گندہ پانی تالاب میں مل جائے، جس کی وجہ سے پورے تالاب کے پانی کا رنگ تبدیل ہو جائے، تو وہ سارا پانی ہی ناپاک ہو جائے گا، اگرچہ اس سے بد بو نہ آئے اور اس پانی کو پینے یا وضو کرنے وغیرہ کاموں میں استعمال نہیں کر سکتے، جب تک کہ اسے شرعی طریقے کے مطابق پاک نہ کر لیا جائے۔

   اور ایسا پانی جس میں نجاست گرنے کی وجہ سے اس کا رنگ تبدیل ہو گیا ہو، تو اسے انسانوں کو پلانا تو دور کی بات، فقہاء نے صراحت فرمائی کہ ایسا پانی جانوروں کو پلانا بھی جائز نہیں ہے۔

   لہذاپوچھی گئی صورت میں اس ناپاک پانی کو سپلائی کرنا، متعدد وجوہات کی بنا پر ناجائز و گناہ ہے، کیونکہ لوگ اس پانی کو کھانے پینے میں  استعمال کے لیے خریدتے ہیں، جبکہ اس ناپاک پانی کا پینا جائز نہیں۔

   اور پانی کا ناپاک ہو جانا عیب ہے اور عیب دار چیز کا عیب بتائے بغیر بیچنا جائز نہیں ہے اور بیچتے وقت اس پانی کا ناپاک ہونا نہیں بتایا جاتا ہے کہ اگر اس پانی کا ناپاک ہونا بتا دیا جائے، تو کوئی بھی اس پانی کو نہیں خریدے گا۔

   اور جب تالاب کے پانی میں ایسا گندہ پانی ملے گا، تو وہ پانی ناپاک ہونے کے ساتھ ساتھ مضرِ صحت بھی ہو گا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کسی کو ضرر (نقصان)پہنچانے سے منع فرمایا ہے اور ایسا مضرِ صحت پانی یقیناً واٹر سپلائی کے ادارے والے یا کوئی عام انسان بھی خود پینا یا اپنے بچوں اور اہل خانہ کو پلانا ہرگز گوارا نہیں کر سکتا، تو جب وہ اسے اپنے لیے گوارا نہیں کرتا، تو کسی دوسرے مسلمان بھائی کو پلانا کیسے گوارا کر سکتا ہے؟ جبکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے کہ تم میں سے اس وقت تک کوئی مومن نہیں ہو سکتا، جب تک اپنے بھائی کے لیے وہی چیز پسند نہ کرے، جو وہ اپنے لیے پسند کرتا ہے۔

   اور ایسے مضرِ صحت پانی کو بیچنا قانوناً بھی جرم ہے کہ جس کے مرتکب کو سزا اور ذلت کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور فقہائے کرام لکھتے ہیں کہ ملک کا ایسا قانون جو خلافِ شرع نہ ہو اور اس کا ارتکاب قانوناً جرم ہو، جس کی بنا پر سزا اور ذلت کا سامنا کرنا پڑتا ہو، تو ایسے قانون کی خلاف ورزی کرنا شرعاً بھی جائز نہیں ہے، کیونکہ یہ خود کو ذلت و رسوائی پر پیش کرنا ہے اور انسان کا خود کو ذلت پر پیش کرنا بھی ناجائز و گناہ ہے۔

   لہذا ایسے پانی کو بیچنے کی شرعاً ، قانوناً و اخلاقاً کسی بھی طرح اجازت نہیں ہے۔

   پانی کے ناپاک ہونے کے بارے میں شیخ محمود بن احمد رحمۃ اللہ علیہ محیط برہانی میں ارشاد فرماتے ہیں:”الماء الجاري، ولا يحكم بتنجسه بوقوع النجاسة فيه، ما لم يتغير طعمه أو لونه أو ريحه، و بعد ما تغير أحد هذه الأوصاف  حكم بنجاسته ولا يحكم بطهارته ما لم يزل ذلك التغير بأن يزاد عليه ماء طاهر حتى یزيل ذلك التغير“ترجمہ: جاری پانی میں نجاست گر جانے سے اس پر ناپاکی کا حکم نہیں لگے گا، جب تک اس کا ذائقہ یا رنگ یا بُو نہ بدلے اور ان اوصاف میں سے کسی ایک کے بھی تبدیل ہونے کے بعد اس پر نا پاکی کا حکم ہو گا، اب اسے پاک نہیں کہیں گے، جب تک (رنگ، بُو، ذائقے کی )تبدیلی ختم نہ ہو جائے اور یہ اس طرح ممکن ہے کہ اس میں پاک پانی زیادہ مقدار میں شامل کر دیا جائے اور اس کی تغیر  زائل ہوجائے ۔(محیط برھانی، کتاب الطھارات، الفصل الرابع فی المیاہ، جلد 1، صفحہ 238، مطبوعہ کراچی)

   جاری پانی میں نجاست کا اثر ہونے کے بارے میں المختار میں ہے:”والماء الجاري إذا وقعت فيه نجاسة ولم ير لها أثر جاز الوضوء منه، والأثر طعم أو لون أو ريح“ترجمہ: اور جاری پانی میں جب نجاست گر جائے اور اس کا اثر دکھائی نہ دے، تو اس سے وضو جائز ہے اور اثر سے مراد یہ ہے کہ اس کا ذائقہ یا رنگ یا بُو بدل جائے۔(المختار، کتاب الطھارۃ، جلد 1، صفحہ 15، مطبوعہ بیروت)

   پانی والی جگہ کے قریب نجاست ہو اور اس کا اثر پانی میں آ جائے ،تو بھی پانی ناپاک ہو جائے گا، چنانچہ فتاوی عالمگیری میں ہے:”بئر الماء إذا كانت بقرب البئر النجسة فهي طاهرة ما لم يتغير طعمه أو لونه أو ريحه. كذا في الظهيرية ولا يقدر هذا بالذرعان حتى إذا كان بينهما عشرة أذرع وكان يوجد في البئر أثر البالوعة فماء البئر نجس وإن كان بينهما ذراع واحد ولا يوجد أثر البالوعة فماء البئر طاهر. كذا في المحيط وهو الصحيح“ترجمہ: پانی کا کنواں، اگر نجاست والی جگہ کے قریب ہے، تو جب تک اس کے پانی کا ذائقہ یا رنگ یا بُو تبدیل نہ ہو، وہ پاک ہے، ظہیریہ میں اسی طرح ہے اور ان دونوں کے درمیان فاصلے کی حد ہاتھ سے مقرر نہیں کی جائے گی، یہاں تک کہ اگر ان دونوں کے درمیان دس ہاتھ کا فاصلہ ہو اور کنویں میں نالی کا اثر پایا جائے، تو اس کنویں کا پانی نجس ہے اور اگر ایک ہاتھ کا فاصلہ ہو اور کنویں میں اس کا اثر نہ پایا جائے، تو کنویں کا پانی پاک ہے، ایسا ہی محیط میں ہے اور یہی صحیح ہے۔(فتاوی عالمگیری، کتاب الطھارۃ، الباب الثالث، الفصل الاول، جلد 1، صفحہ 20، مطبوعہ کوئٹہ)

   اسی بارے میں اعلی حضرت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن ارشاد فرماتے ہیں:”کنویں کےقریب نجس چہ بچہ کا ہونا، اُسے نجس کر دیتا ہے، بعض نے کہا: پانچ ہاتھ سے کم تک، بعض نے سات ہاتھ سے کم تک اور صحیح یہ ہے کہ جتنی دُور سے نجاست کا اثر ظاہر ہو، نجس کر دے گا، اگرچہ بیس ہاتھ کے فاصلہ سے۔“     (فتاوی رضویہ، جلد 3، صفحہ 287، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

   نجاست کی وجہ سے جس پانی کا رنگ تبدیل ہو جائے، تو اسے جانوروں کو بھی پلانا، جائز نہیں ہے، چنانچہ  بحر الرائق میں ہے:”وأما الماء إذا وقعت فيه نجاسة فإن تغير وصف الماء لم يجز الانتفاع به بحال، وإن لم يتغير الماء جاز الانتفاع به كبل الطين وسقي الدواب“ترجمہ: بہر حال اگر پانی میں نجاست گر جائے اور پانی کا کوئی وصف (رنگ، بو، ذائقہ)تبدیل ہو جائے، تو اس سے اس حالت میں نفع لینا جائز نہیں ہے اور اگر پانی (کا کوئی وصف)تبدیل نہ ہو، تو اس سے نفع لینا جائز ہے، جیسے مٹی تر کرنے یا جانوروں کو پلانے کے لیے۔(بحر الرائق، کتاب الطھارۃ، احکام المیاہ، جلد1 ، صفحہ173، مطبوعہ کوئٹہ)

   بغیر بتائے عیب دار چیز کو فروخت کرنے کے ناجائز ہونے کے بارے میں سنن ابن ماجہ میں ہے:”عن عقبة بن عامر، قال: سمعت رسول اللہ صلى اللہ  عليه وسلم، يقول: المسلم أخو المسلم، ولا يحل لمسلم باع من أخيه بيعا فيه عيب إلا بينه له“ترجمہ: حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ مسلمان، مسلمان کا بھائی ہے اور جب مسلمان اپنے بھائی کے ہاتھ ایسی چیز بیچے، جس میں عیب ہو، تو جب تک وہ عیب بیان نہ کر دے، اسے بیچنا حلال نہیں۔(سنن ابن ماجہ، کتاب التجارات،صفحہ 162، مطبوعہ کراچی)

   عیب دار چیز کو بیچنے کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:”من باع عيبا لم يسمه لم يزل في غضب اللہ، ولم تزل الملائكة تلعنه“ترجمہ: جو شخص عیب زدہ چیز کو بغیر عیب بتائے بیچے، وہ ہمیشہ اللہ کے غضب میں رہتا ہے اور اس پر ہمیشہ فرشتے لعنت بھیجتے ہیں۔           (المعجم الکبیر للطبرانی، جلد 22، صفحہ 54، مطبوعہ قاھرہ)

   عیب دار چیز کو بیچنے کے بارے میں بحر الرائق میں ہے:”كتمان عيب السلعة حرام وفي البزازية وفي الفتاوى إذا باع سلعة معيبة عليه البيان وإن لم يبين قال بعض مشايخنا يفسق وترد شهادته“ترجمہ: سامان کے عیب کو چھپانا حرام ہے اور بزازیہ اور فتاوی میں ہے: جب کسی نے عیب دار چیز کو بیچا، تو اس پر عیب کو بیان کرنا واجب ہے اور اگر عیب کو بیان نہیں کیا، تو ہمارے بعض مشائخ فرماتے ہیں کہ ایسے شخص کو فاسق قرار دیا جائے گا اور اس کی شہادت کو رد کیا جائے گا۔      (بحر الرائق، باب خیار العیب، جلد 6، صفحہ 58، مطبوعہ کوئٹہ)

   تیل ناپاک ہو گیا، تو یہ عیب ہے اور بیچتے وقت اس عیب کو بتانا ضروری ہے تاکہ خریدار اسے کھانے میں استعمال نہ کرے، چنانچہ بہار شریعت میں ہے:”تیل ناپاک ہوگیا، اس کی بیع جائز ہے اور کھانے کے علاوہ اُس کو دوسرے کام میں لانا بھی جائز ہے، مگر یہ ضرور ہے کہ مشتری کو اُس کے نجس ہونے کی اطلاع دیدے تا کہ وہ کھانے کے کام میں نہ لائے اور یہ بھی وجہ ہے کہ نجاست عیب ہے اور عیب پر مطلع کرنا ضرور ہے۔“(بھار شریعت، جلد 2، صفحہ707 تا  708، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

   لوگوں سے ضرر کو دور کرنے کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:”لا ضرر ولا ضرار ،من ضار ضره اللہ، ومن شاق شق اللہ عليه“ ترجمہ: نہ ابتدا میں ضرر پہنچاؤ اور نہ بدلے میں ، جو ضرر دے، اللہ عزوجل اس کو ضرر دے اور جو مشقت کرے، اللہ عزوجل اس پر مشقت ڈالے۔(سنن دار قطنی، جلد 4، صفحہ51، مطبوعہ بیروت)

   الاشباہ والنظائر میں ہے:”الضرر يزال، أصلها قوله عليه الصلاة والسلام لا ضرر ولا ضرار“ ترجمہ: ضرر کو ختم کیا جائے گا، اس قاعدے کی اصل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: نہ ابتدا میں ضرر پہنچاؤ اور نہ بدلے میں ۔ (الاشباہ والنظائر، جلد 1، صفحہ 72، مطبوعہ بیروت)

   مومن کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:”لا يؤمن أحدكم، حتى يحب لأخيه ما يحب لنفسه“ ترجمہ: تم میں سے اس وقت تک کوئی مومن نہیں ہو سکتا، جب تک اپنے بھائی کے لیے وہی چیز پسند نہ کرے، جو وہ اپنے لیے پسند کرتا ہے۔(الصحیح لبخاری، کتاب الایمان، جلد1، صفحہ6، مطبوعہ کراچی)

   خود کو ذلت میں ڈالنے کے ناجائز ہونے کے بارے میں حدیث پاک میں ہے:”قال رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم: لا ينبغي للمؤمن أن يذل نفسه“ ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: مومن کے لیے جائز نہیں کہ خود کو ذلت و رسوائی میں مبتلا کرے۔(جامع ترمذی، ابواب الفتن، جلد 2، صفحہ 498، مطبوعہ لاھور)

   علامہ محمود بن احمد عینی علیہ رحمۃ اللہ القوی لکھتے ہیں:”اذلال النفس حرام“ترجمہ: نفس کو ذلت پر پیش کرنا حرام ہے۔(البنایہ شرح الھدایہ، کتاب النکاح، جلد 4، صفحہ 619، مطبوعہ کوئٹہ)

   خلافِ قانون امر کا ارتکاب کرنے کے بارے میں اعلی حضرت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن لکھتے ہیں:”کسی ایسے امر کا ارتکاب جو قانوناً، نا جائز ہو اور جرم کی حد تک پہنچے، شرعا بھی ناجائز ہو گا کہ ایسی بات کے لیے جرم قانونی کا مرتکب ہو کر اپنے آپ کو سزا اور ذلت کے لیے پیش کرنا شرعا بھی روا نہیں۔“ (فتاوی رضویہ، جلد 20، صفحہ 192، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم