Private Bank Ke Bonds Ka Nafa Soodi Hone Ki Soorat

پرائیویٹ بینک کے بانڈز کا نفع سود ی ہونے کی صورت

مجیب:ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری مدنی

فتوی نمبر:IEC-0030

تاریخ اجراء:20شوال المکرم1444ھ/10مئی3 202ء

مرکزالاقتصادالاسلامی

Islamic Economics Centre (DaruliftaAhlesunnat)

(دعوت اسلامی-دارالافتاءاہلسنت)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شر ع متین اس مسئلے میں کہ دبئی میں ایک  نجی بینک(Private Bank) ، بانڈ ہولڈر (Bond Holder)کےنام پر بانڈز (Bonds)جاری کرتا ہے جس کی قیمت 1000 درہم ہے ۔  ہر تین ماہ بعد اس کی قرعہ اندازی (Draw)کر کے نفع  تقسیم کیا جاتا ہے۔ یہ بینک اپنے کسٹمر کو ایک رسید جاری کرتا ہے  (جسے DEBENTURESبھی کہا جاتا ہے)۔  اس کے عوض انہیں جمع کرائی گئی اصل رقم  کے ساتھ ساتھ مزید رقم دینے کا وعدہ کرتا ہے۔قرعہ اندازی کے علاوہ بھی بینک اس بانڈ  لینے والے کو نفع دیتا ہے ۔ سوال یہ ہے کہ کیا ان بانڈز کا قرعہ اندازی کے ذریعے حاصل کیا جانے والا نفع جائز ہے یا نہیں؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   پوچھی گئی صورت  میں  مذکورہ بانڈ کے بدلے رقم دینا حقیقت میں قرض دینا ہے اور اس پر نفع لینا  یا قرعہ اندازی میں شامل ہونا قرض سے نفع حاصل کرنے کی صورت ہے جو  ناجائز و حرام  ہے۔

   اللہ پاک قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے:اَلَّذِیۡنَ یَاۡکُلُوۡنَ الرِّبٰوا لَا یَقُوۡمُوۡنَ اِلَّا کَمَا یَقُوۡمُ الَّذِیۡ یَتَخَبَّطُہُ الشَّیۡطٰنُ مِنَ الْمَسِّ ؕ ذٰلِکَ بِاَنَّہُمْ قَالُوۡۤا اِنَّمَا الْبَیۡعُ مِثْلُ الرِّبٰوا ۘ وَاَحَلَّ اللہُ الْبَیۡعَ وَحَرَّمَ الرِّبٰوا ؕ فَمَنۡ جَآءَہٗ مَوْعِظَۃٌ مِّنۡ رَّبِّہٖ فَانۡتَہٰی فَلَہٗ مَا سَلَفَ ؕوَاَمْرُہٗۤ اِلَی اللہِ ؕ وَمَنْ عَادَ فَاُولٰٓئِکَ اَصْحٰبُ النَّارِ ۚ ہُمْ فِیۡہَا خٰلِدُوۡنَ  ﴿۲۷۵﴾ یَمْحَقُ اللہُ الرِّبٰوا وَیُرْبِی الصَّدَقٰتِ ؕ وَاللہُ لَا یُحِبُّ کُلَّ کَفَّارٍ اَثِیۡمٍ ﴿۲۷۶)۔ترجمۂ کنز الایمان: وہ جو سُود کھاتے ہیں قیامت کے دن نہ کھڑے ہوں گے مگر جیسے کھڑا ہوتا ہے وہ جسے آسیب نے چھو کر مخبوط بنا دیاہو، یہ اس لیے کہ انہوں نے کہا بیع بھی تو سُود ہی کے مانند ہے اور اللہ نے حلال کیا بیع اور حرام کیا سُود۔  تو جسے اس کے رب کے پاس سے نصیحت آئی اور وہ باز رہا تو اسے حلال ہے جو پہلے لے چکا  اور اس کا کام خدا کے سپرد ہے اور جو اَب ایسی حرکت کرے گا تووہ دوزخی ہے وہ اس میں مدتوں رہیں گے۔اللہ ہلاک کرتا ہے سُود کو  اور بڑھاتاہے خیرات کو اور اللہ کو پسند نہیں آتا کوئی ناشکر بڑا گنہگار۔(پارہ3،سورۃ البقرہ،آیت275،276)

   ایک اور مقام پر اللہ پاک ارشاد فر ماتا ہے:وَمَاۤ اٰتَیۡتُمۡ مِّنۡ رِّبًا لِّیَرْ بُوَاۡ فِیۡۤ اَمْوَالِ النَّاسِ فَلَا یَرْبُوۡا عِنۡدَ اللہِ ۚوَمَاۤ اٰتَیۡتُمۡ مِّنۡ زَکٰوۃٍ تُرِیۡدُوۡنَ وَجْہَ اللہِ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الْمُضْعِفُوۡنَ  ﴿۳۹﴾ ترجمۂ کنز الایمان: اور تم جو چیز زیادہ لینے کو دو کہ دینے والے کے مال بڑھیں تو وہ اللہ کے یہاں نہ بڑھے گی اور جو تم خیرات دو اللہ کی رضا چاہتے ہوئے تو انہیں کے دونے ہیں۔ (پارہ 21،سورۃالروم،آیت39)

   قرض کے سبب حاصل ہونے والا نفع سود ہے جیسا کہ حدیث پاک کی مشہور کتاب کنز العمال شریف میں ہے:”كل قرض جر منفعة فهو ربا“یعنی ہر وہ قرض جو نفع لائے سود ہے۔(کنز العمال،جزء6،صفحہ238،حدیث 15516،مطبوعہ مؤسسۃ الرسالۃ)

   علامہ ابن عابدین شامی رحمۃ اللہ علیہ قرض پر نفع کے حرام ہونے کی وجہ بیان کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:”لانہ یستوفی دینہ کاملاً فتبقی لہ المنفعۃ فضلاً فیکون رباً“یعنی کیونکہ  قرض دینے والا اپنا مکمل دَین  وصول پا لےگا تو منفعت اس کے لئے زائد قرار پائی جو کہ سود ہے۔ (رد المحتار،جلد10،صفحہ86،مطبوعہ کوئٹہ)

   سیدی اعلیٰ حضرت،امام اہلسنت ،مولانا شاہ  امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن  سے ایک سوال ہوا جس میں یہ  الفاظ بھی موجود ہیں:”اس وقت زید سے بکر نے کہا کہ اگر اس وقت پندرہ سو روپے دو تو میں  لے لوں اور تجارت میں لگادوں اور چار سال میں اگر روپیہ ادا ہوا تو منافع لوں گا“تو آپ رحمۃ اللہ علیہ نے جواباً ارشاد فرمایا:”صورت مستفسرہ میں وہ منافع قطعی سود اور حرام ہیں حدیث میں ہے:”کل قرض جرمنفعۃ فھو ربا“ قرض سے جو نفع حاصل کیا جائے وہ سو دہے۔“ (فتاوی رضویہ،جلد19،صفحہ 561،مطبوعہ رضا فاؤندیشن،لاہور)

   صدر الشریعہ،بدر الطریقہ،مفتی محمد امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ تعالی علیہ فرماتے ہیں:”قرض سے انتفاع حرام ہے۔“(بہار شریعت،جلد3،صفحہ704،مطبوعہ مکتبۃ المدینہ،کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم