Purane Note Ke Badle New Note Khareedna Kaisa?

پرانے نوٹوں کے بدلے نئے نوٹ خریدنا کیسا ؟

مجیب:مفتی فضیل  رضا عطاری

فتوی نمبر:Kan-15460

تاریخ اجراء:24ربیع الآخر1442ھ/10 دسمبر2020ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین  اس مسئلے کے بارے میں کہ میں کرنسی کے لین دین کا کاروبار  کرتا ہوں۔کاروبار کا طریقہ یہ ہے کہ نئے نوٹ خرید لیتا ہوں اور  پھر پرانے نوٹوں کے بدلے زیادہ قیمت پر بیچ دیتا ہوں اور یہ خرید و فروخت ہاتھوں ہاتھ ہوتی ہے،اس میں ادھار نہیں ہوتا۔معلوم یہ کرنا ہے کہ  کیا یہ خرید وفروخت جائز ہے ؟یہ سود کے زمرے میں تو نہیں آتی ؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   پوچھی گئی صورت میں آپ کا  نئے نوٹ خرید کر انہیں پرانے نوٹوں کے بدلے زیادہ قیمت پر نقد بیچ دینا جائز ہے،یہ بیچنا اسی مُلک کی کرنسی سے ہو یا  دوسرے ملک کی کرنسی سے،البتہ ادھار خرید وفروخت جائز نہیں ۔

   تفصیل یہ ہے کہ کرنسی نوٹ ایک مُلک کےہوں تو بلاشبہ ایک ہی جنس ہیں اور اگرجدا جدا ملک کے ہوں تب بھی ایک ہی جنس ہونے کا قول ہمارے  نزدیک معتمد ہے، جیسا کہ بہت سے معتمد فقہائے کرام بلکہ ہند مبارکپور اشرفیہ کی مجلس شرعی اور مجلس شرعی بریلی شریف کا طے شدہ فیصلہ بھی یہی ہے، لہذا مطلقا کرنسی نوٹ چاہے ایک ملک کے ہوں یا جدا جدا ،ایک ہی جنس ہوتے ہیں۔نیز کرنسی نوٹ قدَری چیز نہیں یعنی اسے ناپا یا تولا نہیں جاتا کہ مکیلی یا موزونی ہو بلکہ عددی یعنی گِن کر دی  جانے والی چیز ہےاور قاعدہ شرعیہ ہے کہ خرید و فروخت میں دو چیزوں کے مابین سود  کی علت ان میں قدَر و جنس کا پایا جانا ہے،قدر سے مراد مکیلی یا موزونی ہونا ہے۔اگر قدَر و جنس دونوں پائی جائیں تو کمی بیشی اور ادھار دونوں حرام ہوتے ہیں اور اگر قدرو جنس میں سے  ایک چیز پائی جائے ،جبکہ دوسری موجود نہ ہو، تو کمی بیشی جائز اور ادھار حرام ہوتا ہے اور اگر دونوں چیزیں نہ پائی جائیں تو کمی بیشی بھی جائز ہے اور ادھار بھی جائز ہے،لہٰذا کرنسی نوٹ  کی کرنسی نوٹ سے کمی بیشی کے ساتھ نقد خرید و فروخت جائز ہے، جبکہ ادھا ر جائز نہیں۔آپ نقد ہی سودا کرتے ہیں ادھار نہیں کرتے اس لیے شرعا جائز ہے ،کوئی حرج نہیں ۔

   ہدایہ میں ہے:’’یجوز بیع الفلس بالفلسین بأعیانھما ‘‘ یعنی ایک معین سکے کی بیع دو معین سکوں کے ساتھ جائز ہے۔(الھدایہ،جلد 2 ، الجز الثالث ،صفحہ63،دار احیاء التراث العربی،بیروت)

   اسی میں ہے:’’إذا وجد أحدھما و عدم الآخر حل التفاضل و حرم النساءمثل أن یسلم ھرویاً فی ھروی أو حنطۃ فی شعیر ‘‘ یعنی جب سود کی دونوں علتوں (قدر و جنس) میں سے ایک پائی جائے اور دوسری نہ پائی جائے،تو زیادتی جائز ہے اور ادھار حرام ہے ،جیسے ہرات کے بنے ہوئے کپڑے ہرات ہی کے کپڑے کے بدلے بیچنا یا گندم کو جَو کے بدلے بیچنا۔ (ایضاً،ص62)

   سیدی اعلیٰ حضرت امام اہلسنت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:’’فاقول:اولا نص علماؤنا قاطبۃ ان علۃ حرمۃ الربا القدر المعھود بکیل ا ووزن مع الجنس فان وجداحرم الفضل والنسأ وان عدما حلاوان وجد احدھما حل الفضل و حرم النسأ وھذہ قاعدۃ غیر منخرمۃ وعلیھا تدورجمیع فروع الباب فاقول: (تو میں کہتا ہوں) اولاً ہمارے جمیع علماء رحمہم اللہ تعالیٰ نے تصریح فرمائی کہ حرمت ربا کی علت وہ خاص اندازہ یعنی ناپ یا تول ہے ۔ اتحاد جنس کے ساتھ، تو اگر قدر و جنس دونوں پائی جائیں ، تو بیشی اور ادھار دونوں حرام ہیں اور اگر وہ دونوں نہ پائی جائیں ، تو حلال ہیں اور اگر دونوں میں سے ایک پائی جائے، تو بیشی حلال اور ادھار حرام ہے اور یہ ایک عام قاعدہ ہے جو کہیں منتقض نہیں اور بابِ ربا کے جمیع مسائل اسی پر دائرہیں۔‘‘(  فتاوی رضویہ،جلد17،صفحہ446،رضا فاؤنڈیشن،لاھور)

   ایک اور مقام پر نوٹ میں قدَر نہ ہونے بلکہ عددی ہونے کے بارے میں فرماتے ہیں:’’اتحاد جنس سے تو تفاضل حرام نہیں ہوجاتا، اتحاد قدر بھی تو لازم ہے، نوٹ سرے سے قدر ہی نہیں رکھتا کہ نہ مکیل ہے، نہ موزون، بلکہ معدود ہے۔‘‘(فتاوی رضویہ،جلد17،صفحہ527،رضا فاؤنڈیشن،لاھور)

   مجلس شرعی بریلی کے فقہی سیمنیار  کے فیصلے میں ہے:’’ممالک مختلفہ کے کرنسی نوٹ اگرچہ مختلف ناموں سے موسوم ہوں نوعِ واحد ہیں کہ ان سب کی اصل کاغذ ہے اور اغراض و مقاصد بھی متحد ہیں یعنی قوت خرید،اگرچہ کرنسی نوٹ مالیت میں مختلف ہیں اور یہ اختلاف تقویم کی قلت و کثرت کا ہے، نہ کہ نوع کا،یہ ایک ملک کے مختلف المالیۃ کرنسی نوٹ کی طرح ہیں۔‘‘ (مجلس شرعی بریلی کا پانچواں فقھی سیمینار)

   مجلس شرعی اشرفیہ مبارک پور کے فیصلہ میں ہے:’’دو ملکوں کی کرنسیاں اپنی حقیقت کے لحاظ سے ایک کاغذ کا ٹکڑا ہیں اور مقصود کے لحاظ سے دونوں ہی ثمن اصطلاحی ہیں،اس لیے دونوں کی جنس ایک ہے۔‘‘(چوتھا فقھی سیمینار،مجلس شرعی مبارکپور ،30 مئی 2004)

   اسی میں کرنسی نوٹ  کی کرنسی نوٹ سے کمی بیشی کے ساتھ نقد خرید و فروخت جائز، جبکہ ادھا ر ناجائز ہونے سے متعلق ہے:’’دو ملکوں یا ایک ہی ملک کی کرنسیوں کی باہم خرید و فروخت صرف نقد جائز ہے گو کہ کمی بیشی کے ساتھ ہو اور اگر کسی طرف ادھار ہو تو ناجائز ہے کہ یہ جنس کے بدلہ جنس کی ادھار بیع ہے جو ایک طرح کا سود (ربا النسیئہ) ہے۔‘‘(ایضاً)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم