Qabza Se Pehle Cheez Agay Bechna Kaisa?

قبضہ سے پہلے چیز آگے بیچنا اور قبضہ کی مختلف صورتیں

مجیب:مفتی  محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر:Pin-7273

تاریخ اجراء:07صفر المظفر1445ھ/24اگست2023ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتےہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس بارے میں کہ ہم جَلانے کی مختلف اشیاء مثلاً: کوئلہ اور لکڑی وغیرہ فیکٹری میں سپلائی کرتے ہیں۔جس کا طریقہ  یہ ہوتا ہے کہ ہم کاروباری افراد سے یہ چیزیں خریدتے ہیں اور انہیں کہتے ہیں کہ  یہ مال فلاں فیکٹری میں پہنچا دو۔جب گاڑی مال لے کر فیکٹری میں پہنچتی ہے،تو فیکٹری کا چیکر مال کو چیک کرتا ہے اور مال میں جتنی مٹی وغیرہ شامل ہوتی ہے،اس کا وزن کاٹ کر اصل  مال کی  رسید بناتا ہے،مثلاً: ہزار کلو مال ہے اور اس میں پچاس کلو مٹی  وغیرہ ہے،تو وہ ساڑھے نو سو کلو وزن کے حساب سے پرچی بنائے گا،مالک بھی اتنے وزن پر متفق ہوتاہے،پھر گاڑی والا وہ رسید ہمیں بھیج دیتا ہے اور  ہم اتنی  قیمت مالک کو بھیج دیتے ہیں اور اپنی رقم فیکٹری سے وصول کر لیتے ہیں۔پوچھنا یہ ہے کہ ہمارا خریدوفروخت کا یہ طریقہ شرعاً درست ہے یا نہیں؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   پوچھی گئی صورت میں خریدوفروخت کا یہ طریقہ شرعاً درست نہیں،کیونکہ  منقولی یعنی ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہونے والی اشیاء کی خریداری کے بعد ان پر اپنا یا اپنے وکیل کا حقیقی یا حکمی قبضہ ہونے سے پہلے آگے  بیچنا ناجائز اور گنا ہ ہے۔اب پوچھی گئی صورت  میں مال کو خریدنے کے بعد اس پر قبضہ کرنے سے پہلے ہی فیکٹری میں بیچ دیا جاتا ہے ،لہٰذا یہ جائز نہیں ۔اس کے جواز کی صورت یہ ہے کہ آپ مال پر قبضہ کرنے کے بعد اسے آگے بیچیں اور قبضہ کی درج ذیل دو صورتیں ہو سکتی ہیں:

   (1)خریداری کے بعد آپ یا آپ کا وکیل وہاں موجود ہوں  اور مال آپ کے سامنے اس طرح رکھ دیا جائے کہ اگر آپ اس پر قبضہ کرنا چاہیں،اسے کہیں لےجانا چاہیں،تو بغیر کسی رکاوٹ کے بآسانی یہ کام کر سکیں ،پھر اس کے بعد  مالک آپ کو کہہ دے کہ اس پر قبضہ کر لیں۔تو اس طرح کرنے سے بھی قبضہ شمار کر لیا جائے گا۔شریعت کی اصطلاح میں اسے تخلیہ کہا جاتا ہے،جو قبضہ کے قائم مقام ہوتا ہے۔

   (2)فیکٹری میں مال لے جانے والی گاڑی آپ کی طرف سے بُک ہو اور اس کا کرایہ بھی آپ  ادا کریں،تو اس صورت میں جیسے ہی مال گاڑی میں لوڈ ہو گا،وہ آپ کے قبضہ میں آجائے گا،کیونکہ گاڑی کا ڈرائیور آپ کا اجیر یعنی ملازم ہو گااور اس کا قبضہ شرعاً آپ کا قبضہ ہو گا۔

   یہاں  چند مزید احکام کو مدِ نظر رکھنا ضروری ہوگا،ورنہ  یہ معاملہ پھر ناجائز ہو سکتا ہے:

   ٭کوئلہ او ر لکڑی وغیرہ خرید تے وقت اس کا ریٹ طے کرنا ضروری ہے کہ فی کلو کتنے کا ہوگا،اگر خریداری کے وقت ریٹ طے نہ کیا ،تو خریدوفروخت ناجائز ہو گی،ہاں اگر خریدوفروخت کے وقت فی کلو کے اعتبار سے تو ریٹ طے ہے،لیکن  یہ معلوم نہیں کہ کل مال کتنے کلو ہے،بلکہ وہ فیکٹری میں جا کر پتہ چلے گا،تو اس  سے کوئی فرق نہیں پڑے گا،کیونکہ فقہاء نے آسانی کے پیشِ نظر اس کے جواز کا فتوی دیا ہے۔

   ٭اگر قبضہ کرنے کےلیے کسی دوسرے کو وکیل بنانا ہے،تو وہ بائع یعنی بیچنے والے کے علاوہ کوئی اور شخص ہونا چاہئے،کیونکہ بائع مشتری یعنی خریدنے والے کی جانب سے قبضہ کا وکیل نہیں بن سکتا اور نہ ہی قبضہ سے پہلے مشتری کی چیز آگے بیچ سکتا ہے۔

   ٭خریدار یا اس کے وکیل  کے قبضہ کے بعد اگر وہ چیز فیکٹری میں پہنچنے سے پہلے ضائع ہوجاتی ہے،تو وہ خریدار ہی کی ضائع ہو گی،نہ کہ بیچنے والے کی۔

   قبضہ سے پہلے چیز بیچنے کی ممانعت پر احادیث:

   حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:’’من ابتاع طعاما فلا یبعہ حتی یقبضہ ، قال ابن عباس:واحسب کل شیءبمنزلة الطعام“ترجمہ:جو شخص غلہ خریدے،تووہ اس پر قبضہ کرنے سے پہلےآگے نہ بیچے ۔حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما فرماتے ہیں: میں سمجھتا ہوں کہ تمام اشیاءغلہ ہی کے حکم میں ہیں۔(الصحیح لمسلم،ج3،ص1160، داراحیاءالتراث العربی ،بیروت)

   ایک اورحدیث میں ہے:’’نھانا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ان نبیعہ،حتی ننقلہ من مکانہ‘‘ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ہمیں چیزکو اس کی جگہ سے منتقل (اس پر قبضہ )کرنے سے پہلے آگے بیچنے سے منع فرمایا۔(الصحیح لمسلم، ج3،ص1161،مطبوعہ دار احیاء التراث العربی ،بیروت)

   مزید ایک حدیث میں ہے:”نهى رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم ۔۔عن بيع ما لم يقبض “ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے  قبضہ سے پہلے چیز کو بیچنے سے منع فرمایا ۔(المعجم الاوسط، باب الالف، ج 2، ص 154، مطبوعہ قاھرہ)

   قبضہ سے پہلے چیز بیچنے کی ممانعت پر فقہی جزئیات:

   مبسوطِ سرخسی میں ہے:”وكذلك ما سوى الطعام من المنقولات لا يجوز بيعه قبل القبض عندنا“ترجمہ: ہمارے نزدیک کھانے کے علاوہ دیگر منقولی چیزوں کا بھی یہی حکم ہے کہ قبضے سے پہلے ان کی بیع جائز نہیں ہے۔(مبسوط سرخسی ، ج 13، ص 10، مطبوعہ کوئٹہ)

   البنایہ شرح ہدایہ میں ہے:’’بیع المنقول قبل القبض لایجوزبالاجماع‘‘ترجمہ:قبضہ سےپہلے منقولی چیز کی خریدوفروخت بالاجماع ناجائز ہے۔(البنایۃ شرح ھدایہ،ج8،ص299،مطبوعہ دار الکتب العلمیہ ،بیروت)

   قبضہ کی صورتوں کے بارے میں جزئیات:

   تخلیہ سے قبضہ ہوجاتا ہے۔چنانچہ درِ مختار میں ہے : ”التسلیم یکون بالتخلیۃ علی وجہ یتمکن من القبض بلا مانع و لا حائل“ ترجمہ :تخلیہ سے بھی سپردگی ہوجاتی ہے،اس طور پر کہ خریدار کےلیے  کسی مانع اور رکاوٹ  کے بغیر قبضہ کرنا ،ممکن ہو ۔(در مختار مع رد المحتار ، ج4 ، ص561تا562،مطبوعہ دار الفکر،بیروت)

   تخلیہ کی مزید وضاحت کرتے ہوئے صدر الشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں:’’بائع نے مبیع اور مشتری کے درمیان تخلیہ کردیا، کہ اگر وہ قبضہ کرنا چاہے ،کرسکے اور قبضہ سے کوئی چیز مانع نہ ہواور مبیع و مشتری کے درمیان کوئی شے حائل بھی نہ ہو، تو مبیع پرقبضہ ہوگیا ۔اسی طرح مشتری نے اگر ثمن وبائع میں تخلیہ کردیا ،تو بائع کو ثمن کی تسلیم کردی۔‘‘(بھارِ شریعت،ج2،ص641،مکتبۃ المدینہ،کراچی)

   وکیل کا قبضہ مؤکل کا قبضہ ہوتا ہے۔چنانچہ مبسوط سرخسی میں ہے:”قبض الوكيل في حق الموكل كقبضه بنفسه“ترجمہ: مؤکل کے حق میں وکیل کا قبضہ خود مؤکل کے قبضہ کی طرح ہے۔(مبسوط سرخسی،  ج 19، ص 176، مطبوعہ کوئٹہ)

   خریدار کی طرف سے گاڑی بک ہو اور کرایہ بھی وہ دے،تو اس سے بھی قبضہ ہو جائے گا۔چنانچہ فتاوی ہندیہ میں ہے:”اذا قال المشتری للبائع:ابعث الی ابنی و استاجر البائع رجلا یحملہ الی ابنہ،فھذا لیس بقبض والاجر علی البائع،الا ان یقول : استاجرْ علیّ من یحملہ ، فقبض الاجیر،یکون قبض المشتری ‘‘ترجمہ : جب خریدار نے  بائع سے کہا کہ مبیع میرے بیٹے تک پہنچا دو اور بائع مشتری کے بیٹے تک مبیع پہنچانے کے لیے کسی شخص کو اجرت پر لے،تو یہ مشتری کا  قبضہ شمار نہیں ہو گا اور اجرت بائع پر لازم ہو گی ،ہاں اگریوں کہے کہ میری طرف سے کسی کو کرائے پر لو،جو سامان لے جائے ، تو اس صورت میں اجیر کا قبضہ خریدار کا قبضہ شمار ہو گا۔(الفتاوی الھندیہ، ج3 ، ص19 ، مطبوعہ  دار الفکر)

   مسئلہ سے متعلق مزید بیان کردہ احکام کے جزئیات:

   خریدوفروخت میں ثمن کی جہالت بیع جائز ہونے کے مانع ہے۔فتاوی ہندیہ میں ہے:’’جهالة المبيع او الثمن مانعۃجواز البيع اذا كان يتعذر معها التسليم ‘‘ترجمہ:مبیع یا ثمن کی جہالت بیع جائز ہونے کے مانع ہے،جبکہ اس کی وجہ سے سپرد کرنا متعذر ہو۔(فتاوی ھندیہ،ج3،ص122،مطبوعہ  دار الفکر)

   فی کلو کے اعتبار سے مال کی قیمت معلوم ہو،لیکن کل مال  کی مقدار معلوم نہ ہو،تو پھر بھی خریدوفروخت جائز ہے۔چنانچہ  صدر الشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں:’’ غلہ کی  ایک ڈھیری اس طرح بیع کی  کہ اس میں   کا ہر ایک صاع ایک روپیہ کو،تو صرف ایک صاع کی  بیع درست ہوگی اور اس میں   بھی مشتری کو اختیار ہوگا کہ لے یانہ لے، ہاں  اگر اُسی مجلس میں   وہ ساری ڈھیری ناپ دی یا بائع نے ظاہر کردیا اور بتادیا کہ اس ڈھیری میں  اتنے صاع ہیں، تو پوری ڈھیری کی  بیع درست ہوجائے گی اوراگر عقد سے پہلے یا عقدمیں   صاع کی  تعداد بتادی ہے،تو مشتری کو اختیار نہیں  اور بعد میں  ظاہر کی  ہے تو ہے۔یہ قول امام اعظم رضی اللہ  تعالی عنہ کاہے اور صاحبین کا قول یہ ہے کہ مجلس کے بعد بھی اگر صاع کی  تعداد معلوم ہوگئی، بیع صحیح ہے اور اسی قول صاحبین پر آسانی کے لیے فتویٰ دیاجاتا ہے۔ ‘‘(بھارِ شریعت،ج2،ص629، مکتبۃ المدینہ،کراچی)

   بائع مشتری کی طرف سے وکیل بالقبض نہیں ہو سکتا۔چنانچہ محیطِ برہانی میں ہے:’’ البائع لا يصلح نائباً عن المشتری فی القبض‘‘ ترجمہ:بائع مشتری کی جانب سے قبضہ کا نائب نہیں بن سکتا۔(محیطِ برھانی،ج6،ص301،دار الکتب العلمیہ،بیروت)

   یونہی مشتری قبضہ سے پہلے بائع کو مبیع بیچنے کا وکیل بھی نہیں بنا سکتا۔چنانچہ فتاوی شامی میں ہے:’’وان قال:بعہ لی،لایجوز۔۔وفی الجامع الفصولین:شراہ ولم یقبضہ حتی باعہ البائع من آخر باکثر فاجازہ المشتری لم یجز ،لانہ بیع ما لم یقبض‘‘ترجمہ:مشتری نے مبیع پر قبضہ کرنے سے پہلے بائع سے کہا کہ اس چیز کو میرے لئے بیچ دو،تو یہ جائز نہیں۔اور جامع الفصولین میں ہے:کوئی چیز خریدی اور اس پر قبضہ نہ کیا، یہاں تک کہ بائع نے کسی اور کو وہ چیز زیادہ قیمت میں بیچ دی،پھر مشتری نے اس بیع کو جائز قراردیا،تب بھی یہ بیع جائز نہیں،کیونکہ یہ قبضہ سے پہلے بیع ہے۔(ردالمحتار مع الدرالمختار،ج7،ص386،مطبوعہ پشاور)

   خریدار کے قبضہ کے بعد مبیع ہلاک ہوئی،تو وہ  خریدار ہی کی ہلاک ہو گی،اگرچہ قبضہ وکیل کے ذریعہ سے ہوا ہو۔چنانچہ تبیین الحقائق میں ہے:’’والوکیل فی القبض عامل للمؤکل ،فیصیر قابضا بقبض الوکیل حکما،فاذا ھلک ،ھلک من مال الآمر‘‘ترجمہ:اور قبضہ کا وکیل مؤکل ہی کے لیے کام کرنے والا ہوتا ہے،لہذا وکیل کے قبضہ کے ذریعہ حکمی طور پر مؤکل قبضہ کرنے والا قرار پائے گا،پس اگر مبیع ہلاک ہو گئی،تو وہ مؤکل کے مال سے ہلاک ہو گی۔(تبیین الحقائق،ج4،ص261،مطبوعہ ملتان)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم