Qiston Per Plot Kharidna Aur Qist Late Hone Par Fine Karna Kaisa?

قسطوں میں پلاٹ خریدنا اور قسط لیٹ ہونے پر جرمانہ کرنا کیسا ؟

مجیب:ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری مدنی

فتوی نمبر:IEC-0011

تاریخ اجراء:22ذیقعدۃ الحرام 1444 ھ/12جون2023 ء

مرکزالاقتصادالاسلامی

Islamic Economics Centre (DaruliftaAhlesunnat)

(دعوت اسلامی-دارالافتاءاہلسنت)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ کہ  کیا قسطوں پر پلاٹ خرید سکتے ہیں ؟ اور کیا قسط لیٹ ہونے پر جرمانے کی شرط لگائی جا سکتی ہے ؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   قسطوں پر پلاٹ خریدنا اور بیچنا جائز ہے جبکہ پلاٹ کی متعین قیمت اور قیمت کی ادائیگی  کی مدت بیان کر دی جائے نیز خریدو فروخت  کے قواعد و ضوابط کے خلاف کوئی ایسی بات نہ پائی جائے جو سودے کو ناجائز کرتی ہو۔یہ بات تو طے ہے کہ اسی پلاٹ کو خریدنا بیچنا جائز ہوگا جو موجود ہو اور ایسی پوزیشن میں ہو کہ خریدار کو کھڑا کر کے دکھایا جا سکے کہ یہ آپ کا پلاٹ ہے ، محض فائل نہ ہو ۔ نیز  ایسا بھی نہ ہو کہ سوسائٹی تو ہو لیکن یہ پتا نہ ہو کہ اس میں میرا پلاٹ کونسا ہے؟ کہ یہ دونوں صورتیں ناجائز ہیں۔

   عموماً  قسطوں پر پلاٹ بیچنے والے پلاٹ کی قیمت  اوراس کی ادائیگی کا شیڈول چارٹ کی صورت میں جاری کرتے ہیں جس میں ڈاؤن پیمنٹ اور ماہانہ قسطوں  کی ادائیگی کی مکمل تفصیل درج ہوتی ہے، یہ ایک اچھا طریقہ  ہےکہ اس سے قیمت اور اس کی ادائیگی کی مدت  میں ابہام باقی نہیں رہتا۔

   ہاں ! اگر پلاٹ کی قیمت اور اس کی ادائیگی کی مدت کو متعین کرنےکی  بجائے  قیمت کےتعلق سے مختلف  پیکجزبیان کیےاور کسی بھی پیکیج کو فائنل کیے بغیر سودا کیا تو ایسا سودا کرنا،  جائز نہیں ہے ۔ مثلا ً ایک سال میں  مکمل قسطیں ادا کرو گے تو اتنی قیمت ہوگی ،دو سال میں  مکمل قسطیں ادا کرو گے تو

   اتنی قیمت ہوگی ،  تین سال میں  مکمل قسطیں ادا کرو گے تو اتنی قیمت ہوگی وغیر ذٰلک۔قیمت کی ادائیگی میں جتنی تاخیر کرو گے اسی تاخیروالے پیکیج کے حساب سے   قیمت دینی ہوگی۔ اس طرح سودا کرنا، جائز نہیں ہے کہ اس سودے میں نہ توپلاٹ کی قیمت متعین ہے اور نہ ہی قیمت کی ادائیگی کی مدت متعین ہے جبکہ درست سودا ہونے کے لیےضروری ہے کہ پلاٹ کی قیمت اور اس کی ادائیگی کی مدت متعین ہو۔

   ڈیل کے شرعا ًدرست ہونے کے لیےیہ بھی ضروری ہے کہ ڈیل میں قسط کی تاخیر سے ادائیگی پر مالی جرمانہ کی شرط نہ ہوکیونکہ قسط لیٹ ادا کرنے کی وجہ سے مالی جرمانہ لینا سود ہے جو کہ حرام ہے۔

   واضح رہے کہ   پلاٹ کی قیمت یااس کی ادائیگی کی مدت متعین  کیے بغیر یا مالی جرمانہ کی شرط کے ساتھ ڈیل فائنل کرنا ، ناجائز وگناہ ہے، جسے ختم کرنا   اور پھر اگر  دوبارہ سودا کرنا چاہیں تو نئے سرے سے عقد کرنا لاز م  ہے۔

   قسطوں کی صورت میں بیع کرنے سے متعلق مجلۃ الاحکام العدلیہ میں ہے:”البیع مع تاجیل الثمن وتقسیطہ صحیح ، یلزم ان تکون المدۃ معلومۃ فی البیع بالتاجیل والتقسیط“یعنی ثمن ادھار ہونے اور قسطیں مقرر کرنے کے ساتھ بیع صحیح ہے اور ادھار یا قسطوں میں بیچنے کی صورت میں مدت معلوم ہونا ضروری ہے۔ (مجلۃ الاحکام العدلیۃ، صفحہ50، مطبوعہ کراچی)

   اعلی حضرت امام اہلسنت الشاہ امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن فتاوی رضویہ میں لکھتے ہیں: ”التاجیل جائز کما حققنا کل ذلک وما التنجیم الا نوع من التاجیل“یعنی(بیع میں) مدت مقرر کرنا ، جائز ہے جیسا کہ ہم نے اس کی تحقیق کی ہے اور قسطیں مقرر کرنا بھی مدت مقرر کرنے ہی کی ایک قسم ہے۔ (فتاوی رضویہ ، جلد 17، صفحہ 493، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن  لاہور)

   فتاوی عالمگیری میں بیع  صحیح ہونے کی شرائط  میں ہے:” أن يكون المبيع معلوما والثمن معلوما علما يمنع من المنازعة فبيع المجهول جهالة تفضي إليها غير صحيح “ یعنی :بیع کے صحیح ہونے کی شرائط میں  سے یہ ہے کہ مبیع معلوم ہواور ثمن معلوم ہو اس طور پر کہ جھگڑا  پیدا  نہ ہو لہٰذا  ایسی مجہول چیز کی بیع صحیح نہیں  جس سے جھگڑا پیدا  ہو ۔(فتاوی عالمگیری،جلد03،صفحہ03،مطبوعہ بیروت)

   قسط کی ادائیگی میں تاخیر پر اضافی پیسے لینے سے متعلق پارہ 3، سورۃ البقرہ کی آیت نمبر 278میں موجود اللہ تعالیٰ کے فرمان”وَذَرُوۡا مَا بَقِیَ مِنَ الرِّبٰۤوا“ کے تحت حجۃ الاسلام امام ابوبکر احمد بن علی رازی جصاص حنفی علیہ رحمۃ  اللہ القوی لکھتے ہیں: ”حظر أن یؤخذ  للأجل عوض ۔۔۔ولا خلاف انہ لو کان علیہ الف درھم حالۃ فقال لہ اجلنی و ازیدک فیھا مائۃ درھم لا یجوز لان المائۃ عوض من الاجل “ یعنی: مدت کے بدلے میں عوض لینے کی ممانعت ہے ۔۔۔اس بات میں کوئی اختلاف نہیں کہ اگر کسی پر ہزار درہم دَین ہو اور وہ دائن سے کہے کہ مجھے اور مہلت دے دو  تو میں سو درہم زیادہ دوں گا، یہ جائز نہیں کیونکہ یہاں  سو درہم مدت کے عوض میں ہیں ۔(اورمدت کا عوض لینا جائز نہیں ہے۔)(احکام القرآن للجصاص، جلد 2، صفحہ 186، مطبوعہ بیروت)

   شمس الائمہ محمد بن احمدالسرخسی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ”المبسوط“ میں لکھتے ہیں :”مقابلة الأ جل بالدراهم ربا، ألا ترى أن في الدين الحال لو زاده في المال ليؤجله لم يجز“مدت کے مقابلے میں (قیمت کے علاوہ)دراہم لینا سود ہے کیا تو نہیں دیکھتا کہ دَینِ حال میں اگر مدیون نے مال میں زیادتی کردی تاکہ دائن اسے مزید مدت دے تویہ جائز نہیں ہے۔(المبسوط،جلد13،صفحہ126 ،مطبوعہ بیروت)

   علامہ ابو الحسن علی بن الحسين الحنفی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ” النتف فی الفتاوی“ میں سودی صورتوں میں  لکھتے ہیں:” ان يبيع رجلا متاعا بالنسيئة فلما حل الاجل طالبه رب الدين فقال المديون زدني في الاجل ازدك في الدراهم ففعل فان ذلك ربا“یعنی:ایک شخص نے ادھار سامان بیچا جب ادھار کی مدت پوری ہوگئی اور  دائن نے مدیون سے دَین کا مطالبہ کیا  تو مدیون نے کہا کہ مجھے مزید مہلت دے دو میں دراہم کی تعداد بڑھا دوں گا پھر دائن نے اس کو قبول کر لیا تو یہ زیادتی سود ہے۔(النتف فی الفتاوی ،صفحہ 485،مؤسسۃ الرسالہ ،بیروت)

   شرط فاسد کے ساتھ عقد کرنے سے متعلق حکم بیان کرتے ہوئےاعلی حضرت امام اہلسنت الشاہ امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن فتاوی رضویہ میں لکھتے ہیں:” و کل شرط فاسد فھو یفسد البیع و کل بیع فاسد حرام واجب الفسخ علیٰ کل من العاقدین فان لم یفسخا اثماً جمیعاً“ یعنی جو شرط فاسد ہو وہ بیع کو بھی فاسد کردیتی ہے اور ہر فاسد بیع حرام ہے جس کا فسخ کرنا بائع اور مشتری میں سے ہر ایک پر واجب ہےاگر وہ فسخ نہ کریں تو دونوں گنہگار ہوں گے۔(فتاویٰ رضویہ، جلد 17، صفحہ 160، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن لاہور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم