Roti Banane Walon Aur Hotel Walon Ki Ek Deal Ka Hukum

روٹیاں بنانے والوں اور ہوٹل والوں کی ایک ڈیل کا حکم

مجیب:ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری مدنی

فتوی نمبر:IEC-0099

تاریخ اجراء:18 ربیع الآخر 1445ھ/03نومبر 2023ء

مرکزالاقتصادالاسلامی

Islamic Economics Centre (DaruliftaAhlesunnat)

(دعوت اسلامی-دارالافتاءاہلسنت)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ ہم روٹیاں بنا کر سالن فروخت کرنے والوں کو دیتے ہیں کہ وہ ہماری روٹیاں اپنے سالن کے ساتھ بیچ دیں اور فی روٹی پانچ روپے خود رکھ لیں۔  وہ 20 روپے کی روٹی فروخت کرتے ہیں اور پانچ روپے خود رکھ لیتے ہیں۔  کیا ہمارا اس طرح کاروبار کرنا شرعا جائز ہے؟

   نیز یہ بھی بتائیں کہ اگر  روٹیاں دوکان بند ہونے تک فروخت نہ ہو سکیں تو وہ کس کی ملکیت میں کہلائیں گی؟

   اگر دوکاندار شام کو  روٹیاں دوکان میں بھول گیا جس کی وجہ سے  روٹیاں خراب ہوگئیں تو شرعاً یہ کس کا نقصان ہوگا؟

   نوٹ: سائل نے اس بات کی وضاحت کی ہے کہ چاہے تمام روٹیاں بکیں یا نہ بکیں، سالن فروخت کرنے والے شام تک ہمیں تمام روٹیوں کی قیمت فی روٹی 15  روپے کے حساب سے دے دیتے ہیں۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   سوال میں بیان کردہ تفصیل سے واضح ہے کہ  فریقین کے درمیان پیش آنے والی یہ صورت  خرید و فروخت کی ہے کہ ہوٹل والا 15 روپے  کی روٹی لے کر 20 روپے  کی فروخت کرتا ہے ۔اگر یہی صورت ہے تو یہ بات واضح ہے کہ  جب روٹی ہوٹل والے کے قبضہ (Possession)میں چلی جائے گی تو اب اس کے نفع نقصان کا وہ خود مالک ہوگا۔

   خرید و فروخت ہوجانے کے بعد جب خریدار سامان پر قبضہ کرلیتا ہے تو سامان کا نفع  ونقصان خریدار کے ذمہ  ہوتا ہے جیسا کہ بدائع الصنائع میں ہے:’’ان المبيع انما يدخل فى ضمان المشترى بالقبض ‘‘یعنی:مشتری کے مبیع پر قبضہ کرلینے سے مبیع اس کے ضمان میں داخل ہوجاتی ہے۔(بدائع الصنائع، جلد5،صفحہ240، بيروت)

   بیع میں مشتری کا مبیع پر قبضہ کرنا اس کے ضمان منتقل ہونے کا سبب ہے جیسا کہ تبیین الحقائق میں ہے:’’ان القبض فيه ناقل للضمان من البائع الى المشترى، فان البيع قبل التسليم مضمون على البائع بالثمن ثم ينتقل ذلك الى المشترى  بالقبض‘‘یعنی:معاہدہ بیع میں قبضہ، بائع کے ضمان  کو مشتری کی طرف منتقل کر دیتا ہے۔ کیونکہ مشتری کو مبیع سپرد کیے جانے سے پہلے ثمن  کے بدلےبائع کے ضمان میں ہوتی ہے ۔  مشتری کے قبضہ کرنے سے ضمان اس کی طرف منتقل ہوجا تا ہے۔(تبيين الحقائق، جلد6،صفحہ63، قاہرہ)

   امام اہل سنت  امام احمد رضاخان علیہ الرحمہ  فرماتے ہیں:’’اس (بائع) نے بعض یا کل ثمن لینے سے پہلے مبیع اس کے قبضہ میں دے دی تو اس سے جو کچھ منافع حاصل ہوں گےملک مشتری ہیں۔‘‘(فتاوٰی رضویہ ،جلد17،صفحہ89،رضا فاؤنڈیشن لاھور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم