Soda Hone Ke Baad Currency Ki Qeemat Mein Kami Ziyaadti Ka Sharai hukum

سودا ہونے کے بعد کرنسی کی قیمت میں کمی زیادتی کا شرعی حکم

مجیب:ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری مدنی

فتوی نمبر:IEC-0001

تاریخ اجراء:17شوال المکرم 1444 ھ/09مئی2023ء

مرکزالاقتصادالاسلامی

Islamic Economics Centre (DaruliftaAhlesunnat)

(دعوت اسلامی-دارالافتاءاہلسنت)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ہمارا ایکسپورٹ کا کام ہے۔ آج سے دو ماہ پہلے یورپ کی ایک پارٹی سے ہمارا یورو (Euro) میں  سودا ہوا، اس وقت ایک یورو(Euro)پاکستانی  237 روپے کا تھا ، اس پارٹی نے آدھی پیمنٹ  (Payment)  یورو(Euro)  کی صورت میں اسی وقت بھیج دی اور آدھی پیمنٹ (Payment)  مال کی ڈیلیوری مل جانے کے بعد بھیجنے کا طے ہوا۔ مال کی ڈیلیوری مل جانے کے بعد جب وہ پارٹی پیمنٹ بھیجنے لگی تو ایک یورو (Euro)  پاکستانی 276 روپے کا ہوگیا تھا ۔ مجھے اس پارٹی سے  یورو(Euro) طے شدہ مقدار میں ہی وصول کرنے چاہیے یاکم وصو ل کرنے چاہیے تھے؟ میں نے طے شدہ مقدار میں  ہی یورو (Euro)  وصول کیے البتہ جب میں اسے پاکستانی کرنسی میں تبدیل کروانے گیا تو مجھے اب ایک یورو (Euro) کے پاکستانی 237 روپے کی بجائے276 روپے ملے ۔اس صورت میرے لیے کیا حکم ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   کسی بھی کرنسی (Currency)میں سودا طے ہوجانے کے بعد اس کرنسی (Currency) کی ویلیو بڑھ جائے یا کم ہوجائے  توخریدار پر کرنسی (Currency) کی طے شدہ مقدار ہی دینالازم ہوتا ہے۔  بیچنے والابھی طےشدہ مقدار ہی  طلب کرسکتا ہے۔ پوچھی گئی صورت میں یورو (Euro)   میں سودا طے ہوجانے کے بعد  یورو(Euro) کی ویلیو بڑھ جانے کے باوجود خریدار پر یورو (Euro) کی طے شدہ مقدار ہی دینا لازم تھا،  اور اس نے یورو (Euro) کی طے شدہ مقدار ہی دی ہے لہٰذا خرید و فروخت بھی درست واقع ہوئی اور  یورو (Euro)  کی صورت میں ملنے والی پیمنٹ کو پاکستانی کرنسی میں تبدیل کرواتے وقت  پہلی قسط کے مقابل دوسر ی قسط میں اضافی ملنے والے پیسے بھی حلال و طیب ہیں کہ یہ اضافہ پاکستانی کرنسی (Currency)  کی یورو (Euro)  کےمقابل ویلیوکی کمی کی وجہ سے ہواہے ۔ واضح رہے کہ یہ جواب اس صورت میں ہے کہ جب باقی رہ جانے والی رقم کی ادائیگی بھی یورو ہی میں ادا ہونا طے ہوا ہو ، سوال سے بھی یہی ظاہر ہو رہا ہے کہ یہی طے ہوا تھا۔

   خرید و فروخت کے بعد کرنسی کی ویلیوکے کم ہوجانے یا بڑھ جانے کا حکم بیان کرتے ہوئےعلامہ شامی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اپنے رسالے ”تنبیہ الرقود علی مسائل النقود “میں لکھتے ہیں :”ان زادت فالبیع علی حالہ، و لا یتخیر المشتری کما سیاتی ، و کذا ان انتقصت لا یفسد البیع ، و لیس للبائع غیرھا “ یعنی:اگر درھم و سکوں کی قیمت بڑھ جائے تو بیع اپنی حالت پر رہے گی اور مشتری کو  اختیار نہ ملے گا جیساکہ عنقریب ہم اسے ذکر کریں گے اور اسی طرح اگر درھم و سکوں کی قیمت کم ہوگئی تو بیع فاسد نہ ہوگی اور بائع کو طے شدہ درھم و سکوں کے علاوہ کچھ نہ ملے گا۔ (رسائل ابن عابدین،تنبیہ الرقود علی مسائل النقود،جلد02،صفحہ59،مطبوعہ سہیل اکیڈمی)

   مزید لکھتے ہیں ”فاما اذا غلت فان ازدادت قیمتھا ،فالبیع علی حالہ و لایتخیر المشتری و اذا انتقصت قیمتھا و رخصت فالبیع علی حالہ و یطالبہ بالدراھم بذلک العیار الذی کان وقت البیع“یعنی:  جب مہنگائی ہو اور   سکوں کی قیمت بڑھ جائے تو بیع اپنی حالت پر رہے گی اور مشتری کو کو ئی اختیار نہ ملے گااور جب  سستائی ہونے پر  سکوں کی قیمت کم ہو تو بیع اپنی حالت پر رہے گی اور مشتری بائع سے اسی معیار کے درھم کا مطالبہ کرے گا جو وقت بیع طے ہوئے تھے۔(رسائل ابن عابدین،تنبیہ الرقود علی مسائل النقود،جلد02،صفحہ60،مطبوعہ سہیل اکیڈمی)

   در مختار میں ہے:”(لو نقصت قيمتها قبل القبض فالبيع على حاله) إجماعا ولا يتخير البائع (و) عكسه (ولو غلت قيمتها وازدادت فكذلك البيع على حاله، ولا يتخير المشتري ويطالب بنقد ذلك العيار الذي كان) وقع (وقت البيع) فتح“ یعنی:اگر سکوں کی قیمت  قبضہ کرنے سے پہلے کم ہوجائے  تو اجماعا ً بیع اپنی حالت پر ہی باقی رہے گی اور بائع کو اختیار نہیں ملے گااور اگر معاملہ اس کے برعکس ہوکہ سکوں کی قیمت بڑھ جائے تو بھی بیع اپنی حالت پر باقی رہے گی،اور مشتری کو اختیار نہیں ملے گا، اس سے اسی معیار کی نقدی کا مطالبہ کیا جائے گاجو بیع کے وقت تھی۔(در مختار ،جلد05،صفحہ269 ،مطبو عہ بیروت)

   صدر الشریعہ بدر الطریقہ مفتی امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ بہار شریعت میں لکھتے ہیں:”پیسوں یا روپیہ کا چلن بند نہیں ہوا مگرقیمت کم ہوگئی تو بیع بدستور باقی ہے اور بائع کو یہ اختیار نہیں کہ بیع کو فسخ کردے۔ یوہیں اگر قیمت زیادہ ہوگئی جب بھی بیع بدستور ہے اور مشتری کو فسخ کرنے کا اختیار نہیں اور یہی روپے دونوں صورتوں میں ادا کیے جائیں گے۔ “(بہار شریعت،جلد02،صفحہ830،مطبوعہ مکتبۃ المدینہ)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم