Sone Ka Karobar Karne Ka Hukum

سونے کا کاروبا ر کرنے کا حکم

مجیب:مولانا محمد انس رضا عطاری مدنی

فتوی نمبر:WAT-2885

تاریخ اجراء: 12محرم الحرام1446 ھ/19جولائی2024  ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   سونے کا کاروبا ر کرنے کا کیا حکم ہے ؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

     سونے چاندی کا کاروبارشرعی اصول و ضوابط کی رعایت کرتے ہوئے کرنا جائز ہےاور شرعی اصول و ضوابط سے ہٹ کر خریدو فروخت کرنا،ناجائزوگناہ ہے ۔

      مثلا سونے کو سونے کے بدلے یاچاندی کوچاندی کے بدلےبیچنا ہے تو ہاتھوں ہاتھ (نقدونقد)اور برابر برابر فروخت کیا جائے۔اگرکمی بیشی کی یاکسی طرف ادھارکیاتوسودہوجائے گااورسودحرام وگناہ ہے ۔اوراگرسونے کوچاندی کے بدلے یاچاندی کوسونے کے بدلے بیچناہے توکمی بیشی کی جاسکتی ہے لیکن ادھارنہیں کرسکتے کہ سودہے ۔

      حدیثِ پاک میں ہے” عن أبي سعيد الخدري، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: الذهب بالذهب، والفضة بالفضة، والبر بالبر، والشعير بالشعير، والتمر بالتمر، والملح بالملح، مثلا بمثل، يدا بيد، فمن زاد، أو استزاد، فقد أربى، الآخذ والمعطي فيه سواء“ترجمہ:حضرت سیّدنا ابو سعید خدریرضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا کہ سونا سونے کے بدلے، چاندی چاندی کے بدلے، گندم گندم کے بدلے، جَو جَو کے بدلے، کھجور کھجور کے بدلے، اور نمک نمک کے بدلے ، برابر برابر اور ہاتھوں ہاتھ بیچا جائے، پس جس نے زیادہ دیا یا زیادہ لیا اس نے سودی معاملہ کیا،اس معاملے میں لینے والا اور دینے والا دونوں برابر ہیں۔(صحیح مسلم،رقم الحدیث 1584،ج 3،ص 1211، دار إحياء التراث العربي ، بيروت)

      مزیدمسلم شریف میں ہے " عن عبادة بن الصامت، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «الذهب بالذهب، والفضة بالفضة، والبر بالبر، والشعير بالشعير، والتمر بالتمر، والملح بالملح، مثلا بمثل، سواء بسواء، يدا بيد، فإذا اختلفت هذه الأصناف، فبيعوا كيف شئتم، إذا كان يدا بيد»"ترجمہ:حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے ارشادفرمایا: سونا سونے کے بدلے، چاندی چاندی کے بدلے، گندم گندم کے بدلے، جَو جَو کے بدلے، کھجور کھجور کے بدلے، اور نمک نمک کے بدلے ،برابر برابر اور ہاتھوں ہاتھ بیچا جائے اورجب یہ قسمیں مختلف ہوجائیں توجیسے چاہوبیچوجب کہ ہاتھوں ہاتھ ہو۔(یعنی ادھارنہ ہو۔)(صحیح مسلم،رقم الحدیث 1587،ج 3،ص 1211، دار إحياء التراث العربي ، بيروت)

      بہار شریعت میں ہے”چاندی کی چاندی سے یا سونے کی سونے سے بیع ہوئی یعنی دونوں طرف ایک ہی جنس ہے تو شرط یہ ہے کہ دونوں وَزْن میں برابر ہوں اور اُسی مجلس میں دست بَدَست (ہاتھوں ہاتھ) قبضہ ہویعنی ہر ایک دوسرے کی چیز اپنے فعل سے قبضہ میں لائے، اگر عاقدین(سودا کرنے والوں) نے ہاتھ سے قبضہ نہیں کیا بلکہ فرض کرو عقد کے بعد وہاں اپنی چیز رکھ دی اور اُس کی چیز لے کر چلا آیا،یہ کافی نہیں ہے اور اس طرح کرنے سے بیع ناجائز ہوگئی بلکہ سود ہوا۔۔۔۔۔۔۔اگر دونوں جانب ایک جنس نہ ہو بلکہ مختلف جنسیں ہوں تو کمی بیشی میں کوئی حرج نہیں مگر تقابُضِ بَدلَین (دونوں جانب سے قبضہ) ضروری ہے اگر تقابضِ بَدلین سے قبل مجلس بدل گئی تو بیع باطل ہوگئی۔ لہٰذا سونے کو چاندی سے یا چاندی کو سونے سے خریدنے میں دونوں جانب کو وزن کر نے کی بھی ضرورت نہیں کیونکہ وزن تو اس لیے کرنا ضروری تھا کہ دونوں کا برابر ہونا معلوم ہوجائے اور جب برابری شرط نہیں تو وزن بھی ضروری نہ رہا صرف مجلس میں قبضہ کرنا ضروری ہے۔"(بہار شریعت،ج 2،حصہ 11،ص 821،822،مکتبۃ المدینہ)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم