کیا لکھ کر قسم اٹھانے سے قسم ہوجائے گی ؟

مجیب:       مفتی ابومحمد علی اصغرعطاری مدنی مدظلہ العالی

فتوی نمبر:Gul:2056

تاریخ اجراء: 03 ربیع الآخر 1442 ھ/19نومبر2020 ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

       کیا فرماتے ہیں علمائےدین و مفتیان ِ شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ  ایک اسلامی بہن نے کسی معاملے پر ناراض ہو کر دوسری اسلامی بہن کو ایک کاغذ پر  یہ عبارت لکھ کر  بھیج دی”اللہ کی قسم میں اب  آپ سے بات نہیں کروں گی“کچھ دنوں بعد ان کی ناراضگی ختم ہو گئی اور ان دونوں نے آپس میں بات چیت  کرنا شروع کر دی۔اب پوچھنا یہ ہے کہ کیا اس طرح لکھنے سے قسم منعقد ہو جائے گی اور کیا اس  اسلامی بہن پر قسم توڑنے کا کفارہ لازم ہو گا؟براہ کرم شرعی رہنمائی فرما دیں۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

     جس طرح قسم کے الفاظ زبان سے اداکرنے سے قسم منعقد ہوجاتی ہے، اسی طرح  قسم کے الفاظ لکھنےسے بھی قسم منعقد ہوجاتی ہے اور اس کے خلاف عمل کرنے سے قسم ٹوٹ جاتی ہے اور کفارہ بھی لازم ہوجاتاہے، جیسا کہ فقہائے کرام نے یہ مسئلہ بیان فرمایا ہے کہ اگر کسی شخص نے  قسم اٹھائی کہ فلاں شخص کو خوشخبری نہیں دوں گا اور لکھ کر اس کو خوشخبری دے دی، تو اس طرح قسم ٹوٹ جائے گی  کہ لکھ کر خوشخبری  دینا بھی زبان سے خوش خبری دینے کی طرح ہے، لہذا پوچھی گئی صورت میں قسم کے الفاظ لکھنے سے قسم منعقد ہوگئی تھی،لہذا قسم توڑنے کی وجہ سے  اسلامی بہن پر قسم کا کفارہ لازم ہو گا۔

     لکھنا بولنے کی طرح ہے، جیسا کہ فتاوی ہندیہ میں ہے:”الکتاب کالخطاب“ترجمہ:لکھنا ، بولنے کی طرح ہے۔

(فتاوی ھندیہ ، جلد3، صفحہ9، مطبوعہ پشاور)

     امام اہلسنت امام احمد رضاخان رحمۃ اللہ علیہ فتاوی رضویہ شریف میں فرماتے ہیں:”القلم احد اللسانین(قلم بھی ایک زبان ہے) جو زبان سے کہے پراحکام ہیں، وہی قلم پر۔

(فتاوی رضویہ، جلد14، صفحہ607، رضا فاونڈیشن، لاھور)

     البحر الرائق میں ہے:”لو قال لا ابشرہ فکتب الیہ حنث “ترجمہ: اگر( کسی نے قسم اٹھاتے ہوئے یہ) کہا کہ میں فلاں کو خوشخبری نہیں دوں گا اور اس کو لکھ کر خوشخبری دے دی، تو قسم ٹوٹ جائے گی۔

(البحرالرائق، جلد4، صفحہ 559، مطبوعہ کوئٹہ)

     بہار شریعت میں ہے:”قسم کھائی کہ تم کو فلاں بات کی خبر نہیں دوں گااور لکھ کر بھیج دیا، تو قسم ٹوٹ گئی۔“

(بھار شریعت، جلد 2، حصہ 9، صفحہ 343، مکتبۃ المدینہ،کراچی)

     قسم کے کفارے  سے متعلق اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:”فَکَفّارَتُہٗۤ اِطْعَامُ عَشَرَۃِ مَسٰکِیۡنَ مِنْ اَوْسَطِ مَا تُطْعِمُوۡنَ اَہۡلِیۡکُمْ اَوْ کِسْوَتُہُمْ اَوْ تَحْرِیۡرُ رَقَبَۃٍ فَمَنۡ لَّمْ یَجِدْ فَصِیَامُ ثَلٰثَۃِ اَیَّامٍترجمہ کنزالایمان:” تو ایسی قسم کا بدلہ دس مسکینوں کو کھانا دینا اپنے گھر والوں کو جو کھلاتے ہواس کے اوسط میں سے یاانہیں کپڑے دینا یاایک بُردہ(غلام) آزاد کرنا،  تو جو ان میں سے کچھ نہ پائے، تو تین دن کے روزے۔‘‘

(پارہ7، سورۃ المائدہ، آیت 89)

     صدر الشریعہ بدر الطریقہ  مفتی امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:”قسم کا کفارہ غلام آزاد کرنا یا دس مسکینوں کو کھانا کھلانایا ان کو کپڑے پہنانا ہے، یعنی یہ اختیار ہے کہ ان تین باتوں میں سے جو چاہے کرے۔“(بھار شریعت، جلد 2، حصہ9،  صفحہ 305، مکتبۃ المدینہ،کراچی)

     مزید ایک مقام پر بہار شریعت میں ہے:”اگر غلام آزاد کرنے یا دس مسکین کو کھانا یا کپڑے دینے پر قادر نہ ہو،  تو پے در پے تین روزے رکھے۔“

(بھار شریعت، جلد 2،حصہ9،  صفحہ 308، مکتبۃ المدینہ،کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم