ALLAH Ke Ilawa Kisi Aur Ki Qasam Khane Ka Hukum ?

والدین، بیوی بچوں وغیرہ ( غیراللہ ) کی قسم کھانے کا حکم؟

مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر: Pin-6863

تاریخ اجراء: 19جمادی الاولی 1445ھ/04 دسمبر 2023ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

    کیافرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس بارے میں کہ آج کل کچھ لوگ  کئی معاملات میں اس طرح کی قسم کھاتے ہیں کہ مجھے اپنے دودھ پیتے بچے کی قسم،اپنے فوت شدہ والدین کی قسم ،بیوی کی قسم ،شوہر کی قسم وغیرہ ۔اس طرح قسم کھانے کا حکم اور کفارہ کیا ہے؟اگر یوں  کہا جائے کہ یہ غیر اللہ کی قسم ہونے کی وجہ سے ناجائز ہے،تو  اس بارے میں میرے  چند سوالات ہیں:

    (1)قرآن پاک میں پارہ 30،سور ہ الشمس کی ابتدئی آیات﴿ وَ الشَّمْسِ وَ ضُحٰىہَا وَ الْقَمَرِ اِذَا تَلٰىہَا  وَ النَّہَارِ اِذَا جَلّٰىہَا وَ الَّیۡلِ اِذَا یَغْشٰىہَا وَ السَّمَآءِ وَ مَا بَنٰىہَا  وَ الْاَرْضِ وَ مَا طَحٰىہَا  وَ نَفْسٍ وَّ مَا سَوّٰىہَا﴾میں اللہ تبارک و تعالی نے خود سورج، چاند،دن ،رات،آسمان ،زمین اور جان کی قسم ارشاد فرمائی ہےاوراس کے علاوہ بھی قرآنِ کریم میں مختلف مقامات پر مختلف چیزوں کی قسم کا ذکر موجود ہے۔تو یہاں غیرِ خدا کی قسم کیسے جائز ہوئی؟

    (2)اگر کوئی  شخص اپنی بیوی کی طلاق کو کسی کام پر معلق کرتا ہے،مثلاً اسے  یوں کہتا ہے کہ’’اگر تو نے فلاں کام کیا،تو تجھے طلاق ‘‘تو  اسے بھی قسم ہی سے تعبیر کیا جاتا ہے ،یعنی یوں کہا جاتا ہےکہ فلاں شخص نے طلاق کی قسم کھائی ہوئی ہے،حالانکہ طلاق کی قسم بھی غیرِ خدا ہی کی قسم ہے۔اگروالدین اور اولادوغیرہ  کی قسم ناجائز  ہے،تو پھرطلاق کی قسم کے بارے میں  کیا جواب ہوگا؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   اللہ پاک کے نام اور صفات کے علاوہ کسی اور ذات مثلاً:والدین،اولاد ،شوہر اوربیوی وغیرہ،یونہی کسی عبادت مثلاً نماز،روزہ،زکوٰۃ  اور حج وغیرہ ،اسی طرح  کسی مقام مثلاً:کعبۃ اللہ ،حرمِ پاک،روضہ انور اور مسجد وغیرہ کی قسم کھانا،ناجائز اور گناہ ہے،کیونکہ یہ غیرِ خدا کی قسم ہے اور اس طرح غیر خدا کی قسم کھانے کی ممانعت کئی احادیث میں موجود ہے۔اس کی حکمت علماء نے یہ بیان فرمائی ہے کہ’’بندہ جب کسی چیز کی قسم کھاتا ہے،توقسم محلوف بہ یعنی جس کی قسم کھائی جائے،اس کی تعظیم کا تقاضا کرتی ہے اورقسم جس اعلیٰ ترین تعظیم کا تقاضا کرتی ہے،اس کی حق دار ذات صرف اور صرف اللہ پاک کی ہے،اس  کے  مشابہ کوئی نہیں۔‘‘

   اس سے واضح ہوا کہ سوال میں ذکر کیے گئے الفاظ کے ذریعہ قسم کھانا، ناجائز و گناہ ہےاور اس سے بچنا لازم ہے۔اب اس میں کوئی فرق نہیں کہ ان الفاظ کے ساتھ قسم گزشتہ کسی معاملہ پر کھائی جائے،مثلاً :یوں کہا جائے کہ’’مجھے اپنے دودھ پیتے بچے یا فوت شدہ والدین کی قسم کہ فلاں کام یوں ہوا ہے‘‘یا آئندہ کسی قسم  کےکام کے کرنے یا نہ کرنے کی  کھائی جائے، مثلاً: یوں کہا جائے کہ ’’مجھے بیوی کی قسم یا شوہر کی قسم  کہ میں فلاں کام ضرور کروں گا یا نہیں کروں گا‘‘بہر صورت حکم ایک ہی ہے،یعنی ناجائز و گناہ ہے۔البتہ کفارہ بہر صورت لازم نہیں ہو گا،کہ گزشتہ کسی کام کی قسم پر تو ویسے ہی کفارہ لازم نہیں ہوتااور آئندہ کسی کام کو کرنے یا نہ کرنے کی قسم کھا کر اسے توڑنے کی وجہ سے اگرچہ کفارہ لازم ہوتا ہے،لیکن یہاں اس طرح غیر خدا کی قسم کھا لینے سے شرعاً قسم منعقد ہی نہیں ہوتی ،لہذا اس کاخلاف کرنے کی صورت میں کفارہ بھی لازم نہیں ہوگا۔البتہ مذکورہ دونوں صورتوں میں گناہ  کا ارتکاب کرنے کی وجہ سے توبہ ضرور لازم ہوگی۔

   نفسِ مسئلہ کا حکم واضح ہوجانے کے بعد اب اس پر وارد ہونے والے سوالات کے جوابات بالترتیب درج ذیل ہیں:

    (1)قرآن کریم میں اللہ پاک نے اپنی مخلوقات میں سے مختلف چیزوں مثلاً:زمین ،آسمان ،دن، رات ،سورج، چاند،شہرِ مکہ، طورپہاڑ، انجیراور زیتون وغیرہ کی  جوقسم ارشاد فرمائی ہے،توعلمائےکرام رحمہم اللہ السلام نے  اس کے مختلف جوابات ارشاد فرمائے ہیں ،ان میں سے دو درج ذیل ہیں:

    (الف)مخلوقات میں سے بعض چیزوں کی قسم ارشاد فرمانا اللہ پاک کے ساتھ خاص ہے، اس نے اپنے بندوں پر بعض چیزوں کا شرف ظاہر کرنے کے لیے ان کی قسم ارشاد فرمائی ہے اور وہ خالق و مالکِ  حقیقی ہے،سب کچھ اس کے قبضہ قدرت میں ہے، جو چاہے کرے، جسے چاہے عزت دے،جسے چاہے ذلت دے،سب اسی کے اختیار میں ہے،جبکہ ہمیں نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح قسم کھانے سے واضح  طور پر منع فرما دیا ہے،لہذا اس ممانعت کے بعد ہمارے پاس کوئی جواز باقی نہیں رہا  کہ حکمِ قرآنی کے مطابق حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت بھی حقیقت میں اللہ ہی کی اطاعت ہے۔

    (ب)قرآنِ کریم میں جہاں بعض چیزوں کے ساتھ قسم کا ذکر کیا گیا ہے،تو وہاں بھی حقیقت میں ان چیزوں کی قسم نہیں، بلکہ رب تعالی ہی  کی قسم ہےاور وہ یوں کہ ان کے شروع میں  لفظِ ’’رَبّ‘‘محذوف ہے(یعنی لفظوں میں اگرچہ  نہیں،لیکن حقیقت میں موجود ہے۔)مثلاً:﴿وَالشَّمْسِ﴾ حقیقت میں یہاں ﴿وَرَبِّ الشَّمْسِ﴾یعنی سورج کے رب کی قسم ہے۔اور﴿وَالْقَمَرِ ﴾حقیقت میں یہاں ﴿ وَ رَبِّ الْقَمَرِ ﴾یعنی چاند کے رب کی قسم ہے۔اور﴿ وَالنَّہَارِ﴾حقیقت میں یہاں ﴿ وَ رَبِّ النَّہَارِ﴾یعنی دن کے رب کی قسم ہے۔یونہی قرآنِ کریم کے دیگر مقامات مثلاً﴿وَالطُّوْرِ﴾تو حقیقت میں یہاں ﴿وَ رَبِّ الطُّوْرِ﴾ یعنی طور کے رب کی قسم ہے۔اور﴿ وَ التِّیْنِ وَ الزَّیْتُوْنِ﴾حقیقت میں ﴿ وَرَبِّ التِّیْنِ وَرَبِّ الزَّیْتُوْنِ﴾ یعنی انجیر کے رب کی اور زیتون کے رب کی قسم ہے۔لہذا اس اعتبار سے یہاں غیرِ خدا کی قسم کا والا اعتراض ہی وارد نہیں ہوگا۔

    (2)اگر کوئی شخص اپنی بیوی کی طلاق کو کسی کام پر معلق کرتا ہے،مثلاً یوں کہتا ہے کہ ’’اگرمیں نے فلاں کام کیا،تو میری بیوی کو طلاق ہے یا بیوی سے کہا:تو نے فلاں کام کیا،تو تجھے طلاق ہے‘‘تو فقہاء کی اصطلاح میں اسے بھی قسم ہی کہا جاتا ہے،لیکن یاد رہے کہ یہ حقیقی قسم نہیں،یہی وجہ ہے کہ اس میں الفاظِ قسم کا کوئی تذکرہ نہیں ہوتا۔فقہاء اسے قسم اس لیے شمار کرتے ہیں ،کہ اس میں قسم والا  معنی پایا جاتا ہے اور وہ کوئی  کام کرنے کی قسم کھانے کی صورت میں ،اسے کرنے پر ابھارنا اور کام نہ کرنے کی قسم کھانے کی صورت میں ،اس سے رکنا ہے،یعنی جس طرح بندہ کسی کام پر حقیقی قسم ( اللہ پاک کے نام و صفات کی قسم) کھانے کےبعد،قسم ٹوٹنے اور کفارہ لازم ہونے کے خوف سے اسے پورا کرنے کی کوشش کرتا ہے ،یونہی بیوی کی طلاق کو کسی کام پر معلق کرنے کے بعد،طلاق واقع ہوجانے کے خوف سے اس کام کو  پورا کرنے کی کوشش میں لگا رہتا ہے ،بلکہ فی زمانہ تو لوگ اللہ پاک کی قسم ٹوٹنے اور اس پر کفارہ لازم ہونے سے بھی زیادہ بیوی کو طلاق واقع ہوجانے سے ڈرتے ہیں،تو اس مناسبت کی وجہ سے  فقہاء اسے بھی قسم سے تعبیر کرتے ہیں۔ نیز اس میں محلوف بہ (طلاق)کی  تعظیم کا کوئی پہلو بھی نہیں، بلکہ فقط کسی کام کو کرنے پر ابھارنا یا ا س سے رکنا مقصود ہوتا ہے۔ لہذا اس پر غیر خدا کی قسم کی ممانعت والا حکم بھی عائد نہیں ہو گا۔

     غیرِ خدا کی قسم ناجائز ہونےکے جزئیات:

   حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے والد کی قسم کھانے سے منع کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:’’ان اللہ ينهاكم ان تحلفوا بآبائكم،من كان حالفا فليحلف بالله او ليصمت‘‘ترجمہ:بے شک اللہ پاک تمہیں اپنے باپ کی قسم کھانے سے منع فرماتا ہے،جو شخص قسم کھائے،تووہ اللہ کی قسم کھائے یا چُپ رہے۔ (الصحیح لبخاری،کتاب الایمان،باب لا تحلفوا بآبائکم،ج2،ص983،مطبوعہ کراچی)

   اس ممانعت کے بعد  حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ اپنا عمل بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں:’’فواللہ ما حلفت بها منذ سمعت رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم نهى عنها ذاكرا ولا آثرا‘‘ترجمہ:اللہ کی قسم !جب سے میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے اس طرح قسم کھانے کی ممانعت سنی ہے،تب سے میں نے نہ اپنی طرف سے  اور نہ ہی کسی دوسرے سے نقل کرتے ہوئے اس طرح کی قسم کھائی ہے۔ (الصحیح لبخاری،کتاب الایمان،باب لا تحلفوا بآبائکم،ج2،ص983،مطبوعہ کراچی)

   اللہ پاک کے نام اور صفات کے علاوہ کسی اور ذات ،عبادت یا مقام کی قسم کھانے کی ممانعت اور ایسی قسم کا حکم بیان کرتے ہوئے علامہ ابوبکر کاسانی رحمۃ اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں:”اما اليمين بغير اللہ ۔۔وهواليمين بالآباء والابناء والانبياء والملائكة  صلوات اللہ عليهم   والصوم والصلاة وسائر الشرائع والكعبة والحرم وزمزم والقبر والمنبر ونحو ذلك،ولا يجوز الحلف بشيء من ذلك لما ذكرنا۔۔ولو حلف بذلك لا يعتد به ولا حكم له اصلا‘‘ ترجمہ:بہر حال غیر اللہ کی قسم کھانا :اور وہ باپ،بیٹوں،انبیاءاورفرشتوں(علیہم الصلوٰۃ والسلام)،روزے،نماز اور دیگر دینی احکام،کعبہ،حرم،زمزم،قبر،منبر اور اس کی مثل دیگر اشیاء کی قسم کھانا ہےاوران میں سے کسی بھی چیز کی قسم کھانا، جائز نہیں،اس وجہ سے جو ہم نے ذکر کر دیااور اگر اس طرح کسی نے قسم کھابھی لی،تو وہ قسم کھانے والا شمار نہیں ہوگا اور اس قسم کا اصلاً کوئی حکم(کفارہ) نہیں ہوگا۔ (بدائع الصنائع،ج3،ص21،مطبوعہ دار الکتب العلمیہ)

   غیرِ خدا کی قسم ناجائز ہونے کی حکمت بیان کرتے ہوئے علامہ عینی رحمۃ اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں:’’والحكمة في النهي عن الحلف بالآباء انه يقتضي تعظيم المحلوف به وحقيقة العظمة مختصة بالله جلت عظمته،فلا يضاهي به غيره،وهكذا حكم غير الآباء من سائر الاشياء‘‘ترجمہ:اور باپ کی قسم کھانے سے منع کرنے میں حکمت  یہ ہے کہ بے شک قسم محلوف بہ(جس کی قسم کھائی جائے،اس )کی تعظیم کا تقاضا کرتی ہے اور حقیقی عظمت اللہ پاک  کے ساتھ خاص ہے ،جس کی شان بلندو بالا ہے،پس کوئی اور اس کے مشابہ نہیں اور یہی حکم باپ کے علاوہ دیگر اشیاء کی قسم کھانے کا بھی ہے۔ (عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری،ج23،ص175،مطبوعہ دار احیاء التراث،بیروت)

   اسی حکمت کو بیان کرتے ہوئے علامہ ابو بکر کاسانی رحمۃ اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں:’’لان هذا النوع من الحلف لتعظيم المحلوف وهذا النوع من التعظيم لا يستحقه الا اللہ تعالی‘‘ترجمہ:کیونکہ قسم کی یہ صورت محلوف(جس کی قسم کھائی جائے،اس )کی تعظیم کے لیے ہوتی ہے اور اس طرح کی تعظیم کی حق دار اللہ پاک ہی کی ذات ہے۔ (بدائع الصنائع،ج3،ص8،مطبوعہ دار الکتب العلمیہ)

   قرآنِ کریم میں بعض مخلوقات کی جو قسم ارشاد فرمائی گئی ہے،اس کے بارے میں علماء کے ارشادات:

   پانچوی صدی کے مفسّر علامہ ابو الحسن علی بن فضّال رحمۃ اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں:’’والنجم وما جرى مجراه من الاقسام التی اقسم اللہ بها،فقيل:تفضيلاً لها وتنويهاً بها،وقيل:بل المقسم به محذوف،ورب النجم ورب الطور ورب التين والزيتون وما اشبہ ذلک‘‘ترجمہ:(قرآنِ کریم میں)تارے  کی قسم اور اس طرح کی دیگر قسمیں جو اللہ پاک نے ارشاد فرمائی ہیں،تو ان کے بارے میں ایک قول یہ ہے کہ یہ ان چیزوں کی فضیلت اور شرف ظاہرکرنے کے لیے ہیں اور ایک قول یہ ہے کہ یہاں مقسم بہ(جس کی قسم کھائی جا رہی ہے،وہ) محذوف ہے،(حقیقت میں )تارے کے رب کی قسم،طور کے رب کی قسم،انجیر اور زیتون کے رب کی قسم ہے۔اور جو ان کی مثل قسمیں ہیں(وہاں پر بھی ایسے ہی ہے۔) (النکت فی القرآن الکریم،ص468،مطبوعہ دار الکتب العلمیہ،بیروت)

   علامہ عینی رحمۃ اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں:’’واما قسم اللہ تعالى بمخلوقاته نحو: والصافات،والطور،والسماء والطارق، والتين والزيتون، والعاديات،فلله ان يقسم بما شاء من خلقه تنبيها على شرفه،او التقدير:ورب الطور وقال ابو عمر:لا ينبغي لاحد ان يحلف بغير اللہ لا بهذه الاقسام ولا بغيرها،لاجماع العلماء على ان من وجب له يمين على آخر في حق، فله ان يحلف له الا بالله‘‘ترجمہ:اور بہرحال اللہ پاک کا اپنی مخلوقات کی قسم ارشاد فرمانا،جیسا کہ(قرآنِ پاک میں ہے)’’ان کی قسم جو صف باندھے ہوئے ہیں،طور کی قسم،آسمان کی اور رات کو آنے والے کی قسم،انجیر کی قسم اور زیتون کی،ان گھوڑوں کی قسم جو ہانپتے ہوئے دوڑتے ہیں‘‘تواللہ پاک کے پاس  اختیار ہے کہ وہ اپنی مخلوق میں سے جس کی چاہےقسم ارشاد فرمائے اس کے شرف پر تنبیہ کرتے ہوئے ۔ یا(لفظِ ربّ کو )مقدّر ماننے کے ساتھ  (حقیقت میں)’’وربّ الطور‘‘طور کے رب کی قسم ہے۔ابو عمر نے کہا کہ (مخلوق میں سے )کسی کے لیے مناسب نہیں کہ وہ اس  طرح اور اس کے علاوہ دیگر الفاظ کے ساتھ غیر اللہ کی قسم کھائے،کیونکہ علماء کا اس بات پر اجماع ہے کہ جس شخص کا کسی دوسرے کے لیے کسی حق کے معاملہ میں قسم کھانا ضروری ہو،تو وہ اللہ ہی کی قسم کھائے۔ (عمدۃ القاری،ج23،ص175،مطبوعہ دار احیاء التراث،بیروت)

   علامہ شامی رحمۃ اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں:’’واما اقسامه تعالى بغيره،كالضحى والنجم والليل،فقالوا:انه مختص به تعالى، اذ له ان يعظم ما شاء وليس لنا ذلك بعد نهينا‘‘ترجمہ:بہرحال اللہ پاک کا اپنے علاوہ کی قسم ارشاد فرمانا،جیسا کہ(قرآنِ پاک میں ہے)’’چڑھتے دن کے وقت کی قسم،تارے کی قسم اور رات کی قسم‘‘تو علماء نے فرمایا:یہ اللہ پاک کے ساتھ خاص ہے،کیونکہ اس کے پاس اختیار ہے،وہ جسے چاہے عزت بخشےاور ہمیں منع کر دینے کے بعد ہمارے پاس کوئی اختیار باقی نہیں۔       (ردالمحتار، ج3،ص705،مطبوعہ دار الفکر،بیروت)

   بیوی کی طلاق کو کسی کام پر معلق کیا جائے،تو اسے قسم کہنے کی تفصیل:

   تبیین الحقائق شرح کنز الدقائق مع حاشیہ شلبی میں ہے:بین القوسین ماخوذا من حاشیۃ الشلبی:’’واليمين بغير اللہ تعالى(نحو قولك ان دخلت الدار فانت طالق)ايضا مشروع وهو تعليق الجزاء بالشرط وهو ليس بيمين وضعا وانما سمی يمينا عند الفقهاء،لحصول معنى اليمين باللہ وهو الحمل او المنع ۔۔واليمين بغيره مكروهة عند البعض،للنهی الوارد فيه وعند عامتهم لا يكره،لانه يحصل بها الوثيقة لا سيما فی زماننا(ای فان احدا لا يصدق ولا يؤتمن عليه فی اليمين بالله تعالى، لقلة مبالاة ظهرت فی الناس،فتمس الحاجة الى الوثيقة بالطلاق وغيره وقد روی عن عبد اللہ بن عمرو بن العاص انه حلف بالطلاق عند النبی صلى اللہ عليه وسلم ،فلم ينكر عليه رسول اللہ  صلى اللہ عليه وسلم  ولو كان مكروها،لانكر عليه)وما روی من النهی محمول على الحلف بغير اللہ لا على وجه الوثيقة،كقولهم:بابيك ولعمرك ونحوه‘‘ ترجمہ:اورغیرِ خدا کی قسم کھانا(مثلاً شوہر کا اپنی بیوی کو یوں کہنا کہ اگر تو گھر میں داخل ہوئی،تو تجھے طلاق  ہے) بھی مشروع ہے اور وہ جزاء کو شرط کے ساتھ معلق کرنا ہےاور یہ وضعی (بنیادی )طور پر قسم نہیں،اسے فقہاء کے نزدیک قسم کا نام اس لیے دیا گیا ہے،کیونکہ اس سے بھی اللہ پاک کی قسم کھانے والا معنی حاصل ہوجاتا ہےاور وہ کسی کام کو کرنے پر ابھارنا یا اس سے رُکنا ہے اور بعض علماء کے نزدیک (اس طرح )غیرِ خدا کی قسم کھانا مکروہ ہے، کیونکہ اس معاملہ میں ممانعت وارد ہوئی ہے اور اکثر علماء کے نزدیک  یہ مکروہ نہیں،کیونکہ اس کے ذریعہ اعتماد حاصل ہوجاتا ہے،بالخصوص ہمارے زمانے میں(کیونکہ لوگوں میں لاپرواہی ظاہر ہوجانے کی وجہ سے بعض اوقات اللہ پاک کی قسم کھانے کے باوجود کسی شخص کی بات نہیں مانی جاتی اور نہ ہی اس پر اعتماد کیا جاتا ہے،پس طلاق وغیرہ کے ذریعہ اعتماد حاصل کرنے کی حاجت پیش آتی ہے،اور حضرتِ عبد اللہ بن عمر و بن عاص رضی اللہ تعالی عنہ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس طلاق کی قسم کھائی ،تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر انکار نہیں کیا،اگر یہ قسم بھی مکروہ ہوتی،تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس پر ضرور انکار فرماتے)اور جوممانعت وارد ہوئی ہے،تو وہ اعتماد والی صورت سے ہٹ کر غیرِ خدا کی قسم کھانے پر محمول ہے،جیسا کہ اہلِ عرب کا قول ہے:تیرے باپ کی قسم،تیری عمر کی قسم وغیرہ۔ (تبیین الحقائق مع حاشیہ شلبی،ج3،ص107،مطبوعہ ملتان)

   اور علامہ شامی رحمۃ اللہ علیہ مزید وضاحت کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں:’’وحاصله:ان اليمين بغيره تعالى تارة يحصل بها الوثيقة: ای اتثاق الخصم بصدق الحالف، كالتعليق بالطلاق والعتاق مما ليس فيه حرف القسم،وتارة لا يحصل مثل: وابيك ولعمری،فانه لا يلزمه بالحنث فيه شیء،فلا تحصل به الوثيقة،بخلاف التعليق المذكور والحديث وهو قوله  صلى اللہ عليه وسلم:من كان حالفا فليحلف بالله تعالى۔۔ الخ محمول عند الاكثرين على غير التعليق،فانه يكره اتفاقا،لما فيه من مشاركة المقسم به لله تعالى فی التعظيم۔۔ وانما كانت الوثيقة فيه اكثر من الحلف بالله تعالى فی زماننا،لقلة المبالاة بالحنث ولزوم الكفارة اما التعليق فيمتنع الحالف فيه من الحنث خوفا من وقوع الطلاق والعتاق وفی المعراج:فلو حلف به لا على وجه الوثيقة او على الماضی يكره‘‘ترجمہ:اور حاصلِ کلام یہ ہے کہ بعض اوقات غیرِ خدا کی قسم کے ذریعہ اعتماد حاصل ہوتا ہے ،یعنی قسم کھانے والے کی سچائی کا مدِ مقابل کو یقین دلانا ہوتا ہے،جیسا کہ بیوی کی طلاق یا غلام کی آزادی کو (کسی کام پر )معلق کرنے کی صورت میں ہوتا ہے،ایسے الفاظ استعمال کر کے کہ جن میں حرفِ قسم نہ ہواور بعض اوقات اعتماد حاصل نہیں ہوتا،جیسے (یوں کہا جائے کہ)تیرے باپ کی قسم اور میری عمر کی قسم، کہ ایسی صورت میں قسم ٹوٹنے کی وجہ سے کچھ بھی لازم نہیں ہوگا،پس اس سے اعتماد بھی حاصل نہیں ہوگا،برخلاف طلاق کو معلق کرنے کی صورت میں ۔اور حدیثِ پاک (اور وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان ہے:جو قسم کھائے،تو وہ اللہ پاک ہی کی قسم کھائے)اکثر علماء کے نزدیک تعلیق (طلاق وغیرہ کو معلق کرنے)کے علاوہ پر محمول ہےکہ طلاق وغیرہ کو معلق کرنے کے علاوہ قسم کھانا بالاتفاق مکروہ ہے،کیونکہ اس صورت میں مُقسَم بہ(جس کی قسم کھائی جائے)کے تعظیم میں اللہ پاک کے شریک ہونے کا شبہ پایا جاتا ہے اور ہمارے زمانے  میں اللہ پاک کی قسم کھانے سے بھی زیادہ طلاق کو معلق کرنے کی صورت میں اعتماد حاصل ہوتا ہےکہ اللہ پاک کی قسم کھانے کی صورت میں قسم ٹوٹنے اور اس پر کفارہ لازم ہونے میں لوگ لاپرواہی برتتے ہیں ،بہر حال طلاق کو معلق کرنے کی صورت میں قسم کھانے والا قسم ٹوٹ جانے کے سبب طلاق واقع ہونے اور غلام آزاد ہوجانے کے خوف سے اس کام سے باز رہتا ہے۔اور معراج الدرایہ میں ہے:اگر غیرِ خدا کی قسم اعتماد والی صورت سے ہٹ کر یا گزشتہ کسی معاملہ پر کھائی،تو یہ مکروہ ہے۔ (ردالمحتار،ج3،ص705،مطبوعہ دار الفکر،بیروت)

   طلاق کو کسی کام پر معلق کرنے کی صورت میں محلوف بہ(طلاق)کی تعظیم کا کوئی پہلو نہیں ہوتا،اس کی وضاحت کرتے ہوئے علامہ شامی رحمۃ اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں:’’واما التعليق فليس فيه تعظيم، بل فيه الحمل او المنع مع حصول الوثيقة، فلا يكره اتفاقا كما هو ظاهر ما ذكرناه ‘‘بہر حال طلاق وغیرہ کو معلق کرنا ،تو اس میں تعظیم والا معاملہ نہیں،بلکہ اس میں اعتماد حاصل ہونے کے ساتھ ساتھ فقط کسی کام پر ابھارنا یااس سے رکنا ہوتا ہے،لہذا یہ بالاتفاق مکروہ نہیں،جیسا کہ ہماری ذکر کردہ تفصیل  کا ظاہریہی ہے۔    (ردالمحتار،ج3،ص705،مطبوعہ دار الفکر،بیروت)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم