Bail Qurban Karne Ki Mannat Mani Phir Bail Bech Kar Deeni Talaba Ko Kitaben Dila Di To

بیل قربان کرنے کی منت مانی ہو، تو اُس بیل کو بیچ کر دینی طلباء کو نصاب دلانا کیسا؟

مجیب:ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری مدنی

فتوی نمبر: Nor-13371

تاریخ اجراء: 01ذی القعدۃ الحرام1445 ھ/10مئی 2024   ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارےمیں کہ میرے پاس ایک بیل موجود ہے، میں نے یہ منت مانی کہ ”اگر میرا فلاں کام ہوگیا تو میں اس بیل کو اللہ عزوجل کے نام پر قربان کردوں گا ۔

   اب میرا وہ کام تو ہوگیا ہے، لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ابھی تعلیمی سال کا آغاز ہوا ہے اور کئی دینی طلباء میری نظر میں ایسے ہیں کہ جو مستحق ہیں اور نصاب کی کتابیں  خریدنا اُن کے لیے مشکل ہورہا ہے، لہذا میری خواہش یہ ہے کہ میں اُس بیل کو قربان کرنے کے بجائے اُسے بیچ کر حاصل ہونے والی رقم سے اُن طلباء کو کتابیں دلادوں تاکہ اُن کی تعلیم میں حرج واقع نہ ہو، کیا میرا ایسا کرنا درست ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   جانور قربان کرنے کی منت مانی ہو تو اس صورت میں قربانی کرنا ہی واجب ہوتا ہے، کیونکہ قربانی کرنا قربتِ مقصودہ ہے اور یہ قربت خون بہانے ہی سے حاصل ہوسکتی ہے کوئی دوسری چیز اس قربانی  کا بدل نہیں بن سکتی، لہذا پوچھی گئی صورت میں آپ کا اُس بیل کو بیچ کر اُس کی رقم صدقہ کردینا کافی نہیں ہوگا ، آپ پر اُس بیل کی قربانی کرنا ہی واجب ہے۔  اُس بیل کو  بیچ کر  رقم صدقہ کردینے سے آپ برئ الذمہ نہیں ہوں گے۔

   البتہ ممکنہ صورت میں حسبِ توفیق خود  یا دیگر افراد کو ترغیب دلا کر اُن طلباء کی مدد کی جاسکتی ہے تاکہ وہ احسن انداز سے اپنی تعلیم کو جاری رکھ سکیں۔

   جانور قربان کرنے کی منت مانی ہو تو اس کی جگہ قیمت صدقہ نہیں کی جاسکتی۔ جیسا کہ  بحرالرائق میں ہے:”لو نذر بعتق عبده أو بذبح شاته أضحية لم يتصدق بقيمته وعليه الوفاء بما سمى“یعنی اگر کسی نے اپنے غلام کو آزاد کرنے یا اپنی بکری کو بطور قربانی ذبح کرنے کی منت مانی ہو تو اس کی جگہ قیمت صدقہ نہیں کرسکتا، اس پر بیان کردہ منت کو ہی پورا کرنا ہی ضروری ہے۔(البحر الرائق شرح کنز الدقائق، کتاب الوقف، ج 05، ص 267، مطبوعہ بیروت)

   فتاوٰی شامی میں ہے:”لو نذر أن يهدي شاتين أو يعتق عبدين وسطين فأهدى شاة أو أعتق عبدا يساوي كل منهما وسطين لا يجوز؛ لأن القربة في الإراقة والتحرير وقد التزم إراقتين وتحريرين فلا يخرج عن العهدة بواحد۔“یعنی کسی نےدرمیانے درجے کی دوبکریاں ہدی  کرنے کی منت مانی اور دو کے برابر ایک فربہ بکری ہدی  کردی،یا دو متوسط غلام آزاد کرنے کی منت مانی ایک عمدہ غلام جو دو کے برابر تھا آزاد کر دیا تو یہ جائز نہیں، کیونکہ نیکی تو خون بہانے اور آزاد کرنے میں ہے حالانکہ اس نے دو خون بہانے اور دو غلام آزاد کرنے کا التزام کیا ہے، لہذا ایک سے وہ برئ الذمہ نہیں ہو گا۔(ردّ المحتار مع الدرّ المختار، کتاب الزکاۃ، ج03،ص250،مطبوعہ کوئٹہ)

   علامہ ابو بکر بن مسعود بن احمد کاسانی علیہ الرحمہ بدائع الصنائع میں اس حوالے سے نقل فرماتے ہیں:”إذا أوجب على نفسه أن يهدي شاتين فأهدى مكانهما شاة تبلغ قيمتها قيمة شاتين إنه لا يجوز إلا عن واحدة منهما وعليه شاة أخرى ؛ لأن القربة هناك في نفس الإراقة لا في التمليك ، وإراقة دم واحد لا يقوم مقام إراقة دمين۔“ترجمہ: ”جب کوئی شخص اپنی ذات پر دو بکریوں کو ہدی کرنا  لازم کرے، پھر دو بکریوں کی جگہ ایک ایسی بکری ہدی میں بھیجے کہ جو قیمت میں  دو بکریوں کے برابر ہو تو یہ ایک بکری  دو بکریوں کی طرف سے کافی نہیں ہوگی اور اُس پر مزید ایک بکری کو ہدی کرنا لازم رہے گا، کیونکہ یہاں قربت خون بہانے میں ہے ، مالک بنانے میں نہیں، اور ایک خون دو خونوں کے برابر نہیں ہوسکتا۔“(بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع، کتاب الزکاۃ، ج 02، ص 42، دار الكتب العلمية، بیروت)

   سیدی اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ  جد الممتار میں اس حوالے سے نقل فرماتے ہیں:” لو نذر ذبح بقرته والتصدق بلحمها لم يجز أن يتصدق بعينها؛ لأن الذبح قربة مقصودة بذاتها فكان كما لو نوى عتق عبده عينا لم يجز أن يتصدق بقيمته۔ “یعنی  اگر کسی نے گائے ذبح کر کے گوشت صدقہ کرنے کی منت مانی تو اسے زندہ گائے صدقہ کرنا جائز نہیں، کیونکہ یہاں ذبح قربت مقصودہ ہے تو یہ معین غلام کو آزاد کرنے کی منت مان کر اس کی قیمت صدقہ کرنے کے عدم جواز کی طرح ہو گیا ۔ (جد الممتار ، کتاب الصوم ، ج04، ص 279-278، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

   سیدی اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ فتاویٰ رضویہ میں ایک مقام پر ارشاد فرماتے ہیں:”اگر یہ نذر کرے کہ اﷲ عزّوجل کے نام پر قربانی کردے گا تو قربانی ہی واجب ہے، بدل ناممکن ہے۔(فتاوٰی رضویہ ، ج13 ، ص581، رضا فاؤنڈیشن ، لاہور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم