Bheek Mang Kar Sadqa Karne Ki Mannat Manne Ka Hukum

بھیک مانگ کر صدقہ کرنے کی منت ماننے کا حکم

مجیب: ابو الحسن جمیل احمد غوری العطاری

فتوی نمبر:Web-509

تاریخ اجراء: 15صفرالمظفر 1444 ھ/12ستمبر 2022ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

    ایک عورت نے منت مانی کہ اگر میرے ہاں کوئی اولاد ہوئی ، تو میں بہتر(72)لوگوں سے بھیک مانگ کر نیاز کروں گی ، پھر اس کو اللہ پاک نے بیٹے سے نوازا  اور اب وہ لوگوں سے پیسے مانگ رہی ہے ۔ اس کےبھیک مانگنے اور اسے بھیک دینے کا شرعی حکم کیا ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

    شرعی ضرورت کے بغیر بھیک مانگنا ، ناجائز و گناہ ہے اور گناہ کی منت ماننا گناہ اور اس پر عمل کرنا بھی گناہ ہے۔ نیز جسے سوال(یعنی مانگنا) حلال نہیں اسے اس کے سوال پر دینا بھی جائز نہیں۔

ناجائز کام کی منت ماننا جائز نہیں،اللہ پاک کے آخری نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں:’’لا نذر فی معصیۃ۔‘‘یعنی  گناہ کے کام میں نذر نہیں۔‘‘ (سنن الترمذی،کتاب النذور والأیمان، الحدیث:1524،دارالکتب العلمیۃ،بیروت)

    سیدی اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:’’فقیربن کر بلاضرورت ومجبوری بھیک مانگنا حرام،کما نطقت بہ أحادیث مستفیضۃ  (جیسا کہ بہت سی مشہورومعروف حدیثیں اس معنی پرناطق ہیں) اور ایسوں کودینا بھی حرام لأنہ اعانۃ علی المعصیۃ کما فی الدر المختار (اس لیے کہ یہ گناہ کے کام پر دوسرے کی مدد  کرنا ہے جیسا کہ درمختارمیں مذکورہے۔)“(فتاوی رضویہ،جلد24،صفحہ494،رضا فاؤنڈیشن،لاہور)

    بہار شریعت میں ہے:”جسے سوال جائز نہیں اس کے سوال پر دینا بھی ناجائز ،دینے والا بھی گنہگار ہوگا۔‘‘(بہار شریعت،جلد1،صفحہ934،مکتبۃ المدینہ،کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم