Doston Ko Khana Khilane Ki Mannat Ka Hukum

دوستوں کو کھانا کھلانے کی منت کا حکم

مجیب:ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری مدنی

فتوی نمبر:Nor-13268

تاریخ اجراء:29رجب المرجب 1445 ھ/10 فروری 2024 ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ زید نےزبان سے الفاظ ادا کرتے ہوئے یہ منت مانی کہ اگر میرا فلاں کام بن گیا، تو میں اپنے دوستوں کو کھانا کھلاؤں گا، پھر وہ کام بن گیا ،تو کیا زید پر کھانا کھلانا لازم ہو جائے گا؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   ایسےدوستوں کو کھانا کھلانے کی منت مانی جن میں امیرو غریب دونوں شامل ہوں، توان کو کھلانے کی منت ، منتِ شرعی نہیں، اس لئے کام ہوجانے پر دوستوں کو کھانا کھلانا شرعی طور پر واجب نہ ہوگا البتہ بہتر یہی ہے کہ جب کام ہوجائے ، تو کھانا کھلا دیا جائے۔  ہاں اگر دوستوں سے خاص ایسے افراد مراد ہوں  جو فقرا یا مساکین ہوں ، تو اب کام ہونے کی صورت میں اس منت کو پوراکرتے ہوئے کھانا کھلانا واجب ہوجائے گا۔

   البحر الرائق میں ہے:”لو قال:إن قدم غائبي فلله علي أن أضيف هؤلاء الأقوام وهم أغنياء لا يصح “یعنی اگر یوں کہا: اگر میرا  گم شدہ شخص آگیا، تو اللہ کے لئے مجھ پر لازم ہے کہ میں ان لوگوں کو کھانا کھلاؤں اور وہ لوگ غنی ہیں ، تو یہ شرعی منت نہیں۔(البحر الرائق، جلد4،صفحہ 322، مطبوعہ:بیروت)

   تاتارخانیہ میں ہے:”لو قال: ان قدم غائبی فللہ علی ان اضیف ھذا القوم المعلومین ینظر ان کانوا اغنیاء لا یصح وان کانوا فقراء یصح“یعنی اگر کہا :میرا گم شدہ شخص آگیا، تواللہ کے لئے مجھ پر لازم ہے کہ میں اس معلوم قوم کو کھانا کھلاؤں گا، تو دیکھا جائے گا اگر وہ اغنیا ہیں ، تو یہ شرعی منت نہیں ہوگی اور اگر وہ فقرا ہیں، تو شرعی منت ہوگی۔ (فتاوی تاتارخانیہ، جلد 2،صفحہ 70، مطبوعہ:بیروت)

   فتاوی رضویہ میں سوال ہوا:”زید نے نذر مانی کہ اگر میرا فلاں کام ہوجائے گا، تو میں اپنے احباب کو کھانا کھلاؤں گا ،تو کیا اس طرح کی منت ماننا اور اس کا ادا کرنا زید پر واجب ہوگا یا نہیں؟“

   اس کے جواب میں امامِ اہلسنت شاہ امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:”یہ کوئی نذرِ شرعی نہیں ، وجوب نہ ہوگا اور بجالانا بہتر ، ہاں اگر احباب سے مراد خاص معین بعض فقراء و مساکین ہوں ، تو وجوب ہوجائے گا“(فتاوی رضویہ، جلد13،صفحہ 584، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم