Har Nauchandi Jumerat Ka Roza Rakhne Ki Mannat Mangi Aur Kisi Mahine Na Rakha

ہر نوچندی جمعرات کا روزہ رکھنے کی منت مانگی اور کسی مہینے نہ رکھا

مجیب: مولانا عبدالرب شاکر عطاری مدنی

فتوی نمبر:WAT-2269

تاریخ اجراء: 01جمادی الثانی1445 ھ/15دسمبر2023   ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   اگر کسی اسلامی بہن نے منت مانی ہو کہ اگر میرا یہ کام ہو جائے، تو میں ساری زندگی  نوچندی  جمعرات (یعنی اسلامی ماہ کی پہلی جمعرات)  کا روزہ رکھوں گی اور اس کی منت پوری ہو گئی ہو اور وہ روزہ رکھتی ہو، لیکن کسی مہینے وہ روزہ نہ رکھ پائے، تو کیا اس روزے کی قضاء ہے یا اس دن کو چھوڑ کر کسی اور دن رکھ سکتی ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   نذرِمعین یعنی جس میں کسی معین دن میں نذر کو پورا کرنے کی منت مانی گئی ہو، تو ایسی نذرکو اُسی معین دن میں پورا کرنا واجب ہوتا ہے ،بغیر کسی عذر کے تاخیر کرنا جائز نہیں ہوتا اور اگر کسی شرعی عذر کی وجہ سے معین دن کی منت کا روزہ  قضاء ہو گیا، تو  بعد میں  اس کی قضاء کرنا بھی لازم ہوگی۔یعنی اس کے بدلے میں کسی اوردن روزہ رکھناہوگا۔

   نذر معین کا وجوب فوری ہے،اس میں تاخیر کی اجازت نہیں ،جیسا کہ بدائع الصنائع میں ہے”وإن أضيف إلى وقت معين بأن قال:للہ علي أن أصوم غدا يجب عليه صوم الغد وجوبا مضيقا، ليس له رخصة التأخير من غير عذر‘‘ترجمہ:اگر نذر کی معین وقت کی طرف اضافت کی ،جیسے یوں کہا کہ اللہ کے لیے مجھ پر کل کا روزہ رکھنا ہے، تو اس پر کل کا روزہ رکھنا اس طور پر واجب ہوگا کہ اس کے وجوب میں وسعت نہیں ہوگی اور اس کے لیے بغیر کسی عذر کے تاخیر کی رخصت نہیں ۔ (بدائع الصنائع،جلد5،فصل فی حکم النذر،صفحہ94،دار الکتب العلمیہ بیروت)

   بہار شریعت میں ہے” اگر کسی معیّن مہینے کی منت مانی، مثلاً رجب یا شعبان کی توپورے مہینہ کا روزہ ضرور ہے، و ہ مہینہ اونتیس کا ہو تو اونتیس روزے اور تیس کا ہو تو تیس اور ناغہ نہ کرے پھر اگر کوئی روزہ چھوٹ گیا تو اس کو بعد میں رکھ لے پورے مہینے کے لوٹانے کی ضرورت نہیں ۔ " (بہار شریعت،ج 1،حصہ 5،ص 1017،مکتبۃ المدینہ،کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم