Kabhi Bhi Kalam Na Karne Ki Qasam Kha Kar Torne Ka Hukum?

کبھی بھی کلام نہ کرنے کی قسم کھا کر توڑنے کا حکم؟

مجیب:مفتی ابو محمد  علی اصغر عطاری مدنی

فتوی نمبر:Faj-7819

تاریخ اجراء:28 ذی  الحجہ1444ھ/17جولائی 2023ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین  اس مسئلے کے بارے میں کہ بہار شریعت وغیرہ  کتب میں  یہ مسئلہ درج ہے کہ اگر کسی نے  ماں باپ  سے بات نہ کرنے کی قسم کھائی ہو، تو  ضروری ہے کہ  قسم توڑے اور  کفارہ بھی دینا ہوگا ۔ اس   بارے میں میرا سوال یہ ہے کہ  مثال کے طور پر اگر     کسی نے قسم یوں کھائی کہ’’ خدا کی قسم میں   ماں سے کبھی بھی  کلام   نہیں کروں گا ‘‘  اس  قسم میں اگر ایک دفعہ  اس  نے والدہ  سے بات کرکے  قسم توڑ  دی اور کفارہ ادا کردیا  ، کیا اب یہ قسم ختم ہوجائے گی یا ہر بار بات کرنے پر   قسم ٹوٹنے اور کفارہ لازم ہونے کا حکم ہوگا ؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   پوچھی گئی صورت میں جب  بندہ ایک دفعہ والدہ سے بات کر لے گا  ،تو اس  کی قسم  ٹوٹ جائے گی اور   کفارہ لازم ہوجائے گا  ، ساتھ ہی قسم بھی ختم ہوجائے گی ۔ آئندہ بات کرنے پر   دوبارہ  قسم ٹوٹنے اور کفارہ لازم ہونے کا حکم نہیں ہوگا ۔

   واضح رہے قرآن پاک اور احادیث مبارکہ میں  واضح طور پر    والدین  کے ساتھ احسان ،  بھلائی اور حسن سلوک  کا حکم ارشاد فرمایا گیا ہے  ۔ والدین کے  نافرمان   اور  ان  کو ایذا دینے والے  کے لیے  سخت وعیدات  ارشاد فرمائی گئی ہیں۔  کہیں   ارشاد ہوا کہ  والدین  کا نافرمان جنت میں داخل نہیں ہوگا  اور کہیں ارشاد فرمایا گیا کہ  دنیا میں جیتے جی اس پر مصیبت نازل ہوگی اور معاذ اللہ  مرتے وقت کلمہ نصیب نہ ہونے کا خوف ہے ، لہذا  والدین  سے تکرار  اور ان سے جھگڑا  وہ بھی  اس حد تک  کہ بات نہ کرنے کی قسم کھا لینا ،  بہت بڑا جرم اور والدین کی دل آزاری کا سبب ہے ، ایسے شخص کو اللہ پاک کی بارگاہ میں سچی توبہ کرنا اور والدین سے معافی مانگنا  ضروری ہے ۔

   قسم ختم ہونے کے حکم سے متعلق  تفصیل کے لیے دو باتیں جاننا ضروری ہیں ۔

    (1)ایسی قسم جس میں تکرار کے الفاظ نہ ہوں ، مثلا: جب  جب میں یہ کام کروں   وغیرہ  جیسے الفاظ نہ ہوں ،  اس میں جب بندہ ایک دفعہ حانث ہوجائے اور  قسم ٹوٹ جائے،  تو  وہ قسم ختم ہوجاتی ہے ، دوبارہ وہ فعل کرنے سے  بندہ حانث  قرار نہیں پائےگا اور نہ ہی  اس سے دوبارہ  کفارہ لازم ہوگا ۔

    (2)تابید (قسم  کا ہمیشہ کے لیے ہونا)تکرار کا فائدہ نہیں دیتی ،  اسی بناء پر  فقہائے کرام نے ارشاد فرمایا   اگر کسی نے   یوں کہا (إن تزوجت فلانة أبدا فهى طلاقیعنی فلاں عورت سے کبھی بھی نکاح کروں ،تو اسے طلاق ہے)   پھر اس نے  ایک دفعہ نکاح  کیا او ر طلاق واقع ہو گئی،تو اب یہ  یمین ختم ہوجائے گی، اس میں تکرار نہیں ہوگی اور  دوبارہ نکاح کرنے پر   دوبارہ  طلاق نہیں پڑے گی۔

   تمہید کے بعد   پوچھی گئی صورت کا تفصیلی جواب یہ ہے کہ  سوال میں موجود   الفاظِ قسم  تکرار والے   الفاظ سے خالی ہیں،  ہاں  ان میں لفظ   (کبھی بھی ) موجود ہے، جو  تابید پر  دلالت کرتا  ہے   یعنی   اس پر دلالت کرتا ہے کہ قسم کسی وقت کے ساتھ مقید نہیں ہے ، قسم ہمیشہ کے لیے ہے،  لیکن  اوپر  معلوم ہوچکا ہے  کہ  تابید  مفید تکرار نہیں ہوتی ، لہذا اس  قسم میں جب  بندہ ایک دفعہ بات کرکے حانث ہوجائے گا،   تو اب   یہ قسم ختم ہوجائے گی ،  ہر دفعہ بات کرنے پر    الگ سے  کفارہ لازم نہیں ہوگا ۔

   قسم میں تکرار کے الفاظ نہ ہوں،تو  ایک دفعہ  حانث ہونے کے بعد  قسم ختم ہوجاتی ہے ۔

   درمختار میں ہے: ”(حلف لا یفعل کذا وترکہ علی الابد ) ۔۔۔ (فلو فعل ) المحلوف علیہ (مرۃ) حنث و(انحلت الیمین) ۔۔۔(فلو فعلہ مرۃ اخری لایحنث ) الا فی کلما“یعنی اگر کسی نے  قسم کھائی کہ   فلاں  کام نہیں  کرے گا ، تو یہ قسم   بغیر کسی وقت کی تحدید کے ہمیشہ  پر محمول ہوگی  اور   اس نے  محلوف علیہ فعل ایک دفعہ کر لیا،  تو   وہ  حانث ہوجائے  گا اور  اس کی  قسم  ختم ہوجائے گی ۔  دوبارہ فعل کرنے سے   وہ  حانث نہیں ہوگا،  سوائے   اس صورت کے جب  قسم میں  ’’ کلما ‘‘    یعنی جب جب کے  الفاظ ہوں ۔

    (لایحنث) کے تحت    ردالمحتار میں ہے : لانه بعد الحنث لا يتصور البر وتصور البر شرط بقاء اليمين فلم تبق اليمين فلا حنث یعنی کیونکہ   حنث کے بعد بر یعنی قسم پورا کرنا متصور نہیں  اور  تصورِ بر   یمین باقی رہنے  کے لیے  ضروری    ہے، لہذا   یہاں  قسم باقی نہیں  رہے  گی اور   پھر    بندہ حانث بھی نہیں ہوگا ۔(درمختار  مع ردالمحتار، جلد3، صفحہ843، مطبوعہ  بیروت)

   تابید مفید تکرار نہیں:

    بحر الرائق میں ہے : ” لو زاد على إن أبدا فإنها لا تفيد التكرار كما لو قال إن تزوجت فلانة أبدا فهى طلاق فتزوجها طلقت ثم إذا تزوجها ثانيا لا تطلق كذا أجاب  ابو نصر الدبوسی كما فى فتح القدير وعلله البزازی  فى فتاويه بأن التأبيد ينفى التوقيت لا التوحيد فيتأبد عدم التزوج ولا يتكرر “ یعنی اگر  کسی نے لفظ  ا ِن کے ساتھ  ابدا کے لفظ کا  یمین میں  اضافہ کیا ہے ، تو یہ تکرار کا فائدہ  نہیں دے گا ، جیسا کہ کسی نے کہا    اگر میں  فلاں عورت سے  کبھی  بھی نکاح کروں ،تو  وہ طلاق والی ہے ، پھر اس نے اس عورت سے نکاح کیا، تو  عورت کو طلاق ہوجائے گی  ، پھر اگر دوبارہ اس سے نکاح کرتا ہے ،تو   طلاق واقع نہیں ہوگی ۔ ابو نصر  الدبوسی  رحمہ اللہ نے  یہی جواب ارشاد فرمایا  ہے،  جیسا کہ  فتح القدیر میں  ہے اور    شیخ علامہ  بزازی  رحمہ اللہ نے اپنے فتاوی میں اس  مسئلہ  کی  یہ علت بیان فرمائی ہے کہ  تابید  توقیت یعنی قسم کو  کسی وقت کے ساتھ مقید کرنے   کے منافی ہے ، توحیدکے منافی نہیں،  لہذا   نکاح نہ کرنے  کا  حکم ہمیشہ کے لیے ہوگا  یعنی کبھی بھی نکاح  کرے گا  قسم ٹوٹ جائے  گی  اور  اس میں تکرار نہیں ہوگی یعنی  ایک دفعہ حانث ہونے کے بعد   قسم ختم ہوجائے گی۔  (بحر الرائق، جلد4، صفحہ 15، مطبوعہ بیروت)

   ردالمحتار میں ہے : ” وإن المقرونة بلفظ أبدا كمتى فإذا قال إن تزوجت فلانة أبدا فهى كذا فتزوجها فطلقت ثم تزوجها ثانيا لا تطلق لأن التأبيد إنما ينفى التوقيت فيتأبد عدم التزوج ولا يتكرر یعنی وہ  لفظ’’ اِن‘‘ جو  لفظ ’’ابدا ‘‘کےساتھ  ملا ہواہے، اس کا حکم ’’ متٰی‘‘ والا ہے  لہذا اگر کسی نے  کہا : اگر میں نے فلاں عورت سے کبھی بھی نکاح کیا، تو    وہ ایسی    یعنی مطلقہ ہے  ، پھر اس نے اس عورت سے نکاح کیا،  تو وہ طلاق والی ہوجائے گی  ، پھر اگر  دوبارہ نکاح کیا، تو  طلاق نہیں ہوگی ، کیونکہ تابید ، توقیت  (قسم کو  کسی وقت کے ساتھ  مقید کرنے ) کے منافی ہے، لہذا نکاح نہ کرنے کا حکم ہمیشہ کے لیے ہوگا اور اس  میں تکرار نہیں ہوگا ۔ (ردالمحتار، جلد4، صفحہ 596، مطبوعہ کوئٹہ)

   ہدایہ مع شرح بنایہ میں ہے : ”(وإن كان حلف على الأبد) بأن قال: واللہ لا أقربك أبداً، أو قال: واللہ لا أقربك فقط بدون ذكر الأبد ومضت المدة ووقعت البينونة (فاليمين باقية لأنها مطلقة) أي لأن اليمين مطلقة عن الوقت، فكان مؤبداً (ولم يوجد الحنث) يعني الموجب للحنث، وهو الوطء (لترتفع به) أي لترتفع اليمين بالحنث، لأنها كانت مؤبدة فبقيت على حالها یعنی اگر کسی نے ہمیشہ کے لیے بیوی کے قریب نہ جانے  کی قسم کھا لی، مثلاً: یوں کہا  اللہ پاک کی قسم میں   اپنی بیوی کے کبھی قریب نہیں جاؤں گا   یا یوں کہا کہ  اللہ پاک کی  قسم میں  اپنی بیوی  کے قریب نہیں جاؤں گا   ،’’ ابدا‘‘ یعنی کبھی بھی  کے لفظ  کا ذکر نہیں کیا  اور  (چار ماہ کی ) مدت  گزر گئی، تو  طلاق بائن واقع ہوجائے گی  ،لیکن  یمین باقی رہے   گی،  کیونکہ  یمین میں وقت کی قید نہیں ہے، لہذا یہ   ہمیشہ کے  لیے قرار پائے گی   اور  یہاں     وہ امر  (وطی)بھی نہیں پایا گیا جو   قسم ٹوٹنے کو ثابت کرے  اور   حانث ہونے سے قسم   ختم ہوجائے، لہذا قسم کے موبد ہونے کی وجہ سے قسم اپنی جگہ باقی رہے گی ۔ (ھدایہ مع شرح بنایہ، جلد5، صفحہ 273، مطبوعہ کوئٹہ)

   والدین کے ساتھ بھلائی  کا حکم ہے اور والدین کے  نافرمان کے لیے سخت وعیدات وارد ہوئی ہیں :

   قرآن پاک میں ہے﴿ وَ وَصَّیْنَا الْاِنْسَانَ بِوَالِدَیْهِ اِحْسٰنًاترجمہ کنزالایمان:’’ اور ہم نے آدمی کو حکم کیا کہ اپنے ماں باپ سے بھلائی کرے۔‘‘(پارہ 26، سورۃ الاحقاف، آیت 15)

   اعلی حضرت  عظیم المرتبت  امام احمد رضا خان  رحمۃ اللہ علیہ  اپنے رسالہ  (الحقوق لطرح العقوق) میں  والدین کے نافرمان کےمتعلق احادیث مبارکہ ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں: رسول اللہ صلّی اللہ تعالیٰ علیہ وسلّم فرماتے ہیں:’’ثلاثۃ لا یدخلون الجنّۃ: العاق لوالدیہ والدیّوث والرجلۃ من النساء‘‘(تین اشخاص جنت میں داخل نہیں ہوں گے: ماں باپ کی نافرمانی کرنے والا ،  دیّوث اور وہ عورت جو  مردانی وضع بنائے،  ت)۔۔۔۔رسول  اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم فرماتے ہیں :’’ کلّ الذنوب یؤخّر اللہ منھا ما شآء إلی یوم القیامۃ إلاّ عقوق الوالدین فإنّ اللہ یعجلہ لصاحبہ في الحیاۃ قبل الممات( سب گناہوں کی سزا اللہ تعالیٰ چاہے، تو قیامت کے لیے اٹھا رکھتا ہے، مگر ماں باپ کی نافرمانی کہ اس کی سزا جیتے جی پہنچاتا ہے ، ت)۔۔۔۔۔۔ایک جوان نزع میں تھا، اسے کلمہ کی تلقین کرتے تھے  ، نہ کہا جاتا تھا ،یہاں تک کہ حضور اقدس سیّد عالم صلّی اللہ تعالیٰ علیہ وسلّم تشریف لے گئے اور فرمایا: کہہ : ’’ لا إلہ إلا اللہ‘‘عرض کی: نہیں کہا جاتا، معلوم ہوا کہ ماں ناراض ہے، اسے راضی کیا، تو کلمہ زبان سے نکلا۔ (فتاوی رضویہ ، جلد24، صفحہ 385 ، رضا فاونڈیشن لاہور ، ملتقطاً)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم