Kya Kaam Hone Se Pehle Mannat Tabdeel Kar Sakte Hain ?

کیا کام ہونے سے پہلے منت تبدیل کرسکتے ہیں ؟

مجیب: مفتی ابو محمد علی اصغر عطاری مدنی

فتوی نمبر: Nor-12010

تاریخ اجراء: 13رجب المرجّب1443 ھ/15فروری2022 ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین  اس مسئلے کے بارے میں کہ کسی نے کوئی کام پورا ہونے پر کسی عبادت کی منت مانی، تو کیا کام پورا نہ ہونے سے پہلے منت میں تبدیلی لائی جا سکتی ہے؟ مثلاً:کوئی کام پورا ہونے پر20 رکعت پڑھنے کی منّت مانی، پھر کام پورا ہونے سے پہلےاگلے دن ہی وہ منت بدل کر 10 رکعت پڑھنے کی  منت مقرر کرلی؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   منت ان معاملات میں سے ہے جن کے لیے تلفّظ ضروری ہے،محض سوچنے سے منت نہیں ہوگی،لہذا اگر کسی نے اتنی آواز سے منت مانی کہ بغیر خلل کے خود سن لے، تو منت ہو گئی،اور  جس وقت منت کے الفاظ کہے جارہے ہیں انشاء یا استثناء کے الفاظ نہ ہوں، تو منت لازم ہو جاتی ہے اس کو واپس نہیں لیا جاسکتا۔ بعد میں  منت تبدیل کی تو تبدیل نہیں ہوگی، لیکن اگر اس تبدیلی میں ایسے الفاظ پائے گئے جن سے  منت لازم ہو جاتی ہے ،تو ایک نئی منت لازم ہوجائےگی۔

منت،قسم کے الفاظ واپس نہیں ہوسکتے، چنانچہ تبیین الحقائق میں ہے:واليمين تصرف لازم لا يصح الرجوع عنهایعنی یمین ایک ایسا لازمی تصرف ہے، جس سے رجوع نہیں ہوسکتا۔

   اس کی علت بیان کرتے ہوئے علامہ شہاب الدین احمدشلبی علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں:ولا رجوع فی اليمين لان فائدته وهی الحمل او المنع لا تحصل اذا صح الرجوعیعنی یمین میں رجوع نہیں ہوسکتا، کیونکہ یہاں رجوع صحیح مانیں تویمین میں کسی کام کے کرنے یا چھوڑنے کےعزم والافائدہ حاصل نہیں ہوگا۔(تبیین الحقائق وحاشیتہ للعلامۃ الشلبی،ج2،ص226،مطبوعہ ملتان)

   درّمختارمیں ہے:وصل بحلفه ان شاء اللہ بطل  يمينه وكذا يبطل بہ ای بالاستثناء المتصل كل ما تعلق بالقول عبادة او معاملةیعنی قسم میں ان شاء اللہ ملا کرکہا، تو قسم باطل ہوجائے گی، یونہی ہر اس عبادت یامعاملے میں جس کا تعلق بولنے سےہوتاہے،وہ عبادت یا معاملہ بھی استثناءِ متصل  کی وجہ سے باطل ہوجائے گا۔

   فتاوی شامی میں ہے:( قوله وصل بحلفه ) قيد بالوصل لانه لو فصل لا يفيد الا اذا كان لتنفس او سعال او نحوه۔۔۔(قوله: عبادة)كنذر واعتاق او معاملة كطلاق واقرار۔۔۔ان الايجاب يقع ملزما بحيث لا يقدر على ابطاله بعدُ فيحتاج الى الاستثناء حتى لا يلزمه حكم الايجاب، ملتقطاً یعنی ماتن نے وصل کی قید لگائی، کیونکہ اگر قسم اوراستثنا میں فاصلہ کیا، تو اس استثنا کا کوئی فائدہ نہیں، ہاں اگر سانس لینے یاکھانسنےیا اس قسم کی کسی اور وجہ سے وقفہ ہوا(تو ایسے وقفے والا استثنامعتبر ہے۔)ماتن کے قول عبادت کی مثال جیسے منت،غلام آزاد کرنا اور معاملے کی مثال جیسے طلاق اور اقرار۔(متصل استثنا کا فائدہ یہ ہے)کہ ایجاب یعنی اپنے اوپر کچھ لازم کرنا، لازم ہوجاتا ہے اس طرح کہ ایجاب کے بعد بندہ اسے رد کرنے پر قادر نہیں، لہذا متصلاً استثنا کی حاجت ہوئی ، تاکہ اسے ایجاب والا حکم لازم نہ ہو۔(الدرّ المختاروردّ المحتار،ج5،ص548،مطبوعہ کوئٹہ)

   صدر الشریعہ مفتی امجد علی اعظمی علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں:”منت یا قسم میں ان شاء اللہ کہا، تو اس کا پورا کرنا واجب نہیں ،بشرطیکہ ان شاء اللہ کا لفظ اس کلام سے متصل ہو اور اگر فاصلہ ہوگیا، مثلاً: قسم کھا کرچپ ہوگیایا درمیان میں کچھ  اور بات کی پھر ان شاء اللہ کہا، تو قسم باطل نہ ہوئی،یونہی ہر وہ کام  جو کلام کرنے سے ہوتا ہے ،مثلاً: طلاق،اقرار وغیرہما یہ سب ان شاء اللہ کہہ دینےسے باطل ہوجاتے ہیں۔(بھارشریعت،ج2،حصہ09،ص318،مطبوعہ مکتبۃ المدینہ،کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم