Kya Nazar Aur Mannat Mangne se Hadees Mein Mana Kiya Gaya Hai ?

نذر و منت ماننے کا حکم، کیا منت ماننے سے حدیث پاک میں منع کیا گیا ہے ؟

مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر: HAB-0191

تاریخ اجراء: 05 ربیع الاول1445ھ/21 ستمبر 2023ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان ِ شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ  نذر یعنی منت ماننا جائز نہیں؟میں نے ایک حدیث پاک پڑھی کہ نذر نہ مانا کرو،نذر تقدیر کو نہیں ٹالتی، اس کے ذریعے تو کنجوس سے مال نکلوایا جاتا ہے۔اس حدیث کے مطابق تو ایسا لگتا ہے کہ نذر ماننا جائز نہیں،برائے کرم اس حوالے سے رہنمائی فرمادیں۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   فی نفسہٖ نذر یعنی منت ماننا جائز ہے۔قرآنِ پاک میں اللہ رب العزت نےنذر کو پورا کرنے کا حکم ارشاد فرمایا ۔جو بندے اپنی نذر پوری کرتے ہیں،ان  کی تعریف فرمائی۔نیز سرکار ِدو عالم صلی اللہ  علیہ وآلہ وسلم نے بھی  نذر کو پورا کرنے کا حکم ارشاد فرمایا ۔اس کے علاوہ متعدد احادیث میں صحابہ کرام علیہم الرضوان  کے نذر ماننے کا ذکر بھی موجود ہے۔

   رہی مذکورہ حدیث کہ جس میں نذر ماننے سے منع فرمایا ،شارحینِ حدیث نے اس کے تین محامل بیان فرمائے ہیں۔

(1)نذر نہ مانو سے مراد یہ ہے  کہ نذر کو ہلکا سمجھ کر بات بات پر نذرماننے کی عادت نہ بنالو، کہیں بعد میں اس کو پورا کرنا مشکل ہوجائے۔

(2)یا مراد یہ ہےکہ صرف نذر کی صورت میں ہی صدقہ و خیرات نہ کیا کرو کہ  یہ کنجوس لوگوں کی عادت  ہے کہ وہ ویسے عام حالات میں اللہ کی راہ میں صدقہ و خیرات نہیں کرتے،لیکن جیسے ان پرکوئی برائی آتی ہے،اس کے دور ہونے ،یا اپنے کسی مقصد کے حاصل ہونےکی منت مان لیتے ہیں ، اور جب برائی ٹلتی  یا اپنا مقصد حاصل ہوتا ہے،پھر ہی اللہ کی راہ میں صدقہ و خیرات کرتے ہیں،لہٰذا ان کی طرح نہ بنو بلکہ اس کے علاوہ بھی اللہ کی راہ میں صدقہ و خیرات کیا کرو۔

(3)یا مراد یہ ہے کہ بعض کم علم لوگ نذر کے حوالے سے یہ سمجھتے ہیں کہ نذر ماننے سے تقدیر الہٰی بدل جاتی ہے جو نعمت نصیب میں نہیں وہ مل جاتی ہے، جو بَلا مقدر میں ہے، وہ ٹل جاتی ہے۔یہ  عقیدہ باطل و مردودہےاور مذکورہ حدیث میں اسی عقیدے کے ساتھ نذر ماننے سے منع فرمایا ہے،ورنہ اگر یہ عقیدہ نہ ہو، تو کوئی حرج نہیں۔

   نوٹ:یہاں نذر کے فی نفسہٖ جائز ہونے کے متعلق بحث تھی۔باقی اسے پورا کرنا کب لازم ہوتا ہے کب نہیں؟ کونسی نذر جائز  ہے ،کونسی نہیں ؟نیز نذر شرعی و عرفی  کے احکام  وغیرہ  جاننےکے لیے بہار شریعت حصہ 09،اور فتاوی رضویہ جلد 13وغیرہ  کا مطالعہ کریں۔

   صحیح مسلم،سنن ترمذی،سنن نسائی وغیرہ کتب احادیث  میں ہے:”عن أبي هريرة، أن رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم قال: لا تنذروا، فإن النذر لا يغني من القدر شيئا، وإنما يستخرج به من البخيل“حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ بے شک سرکارِ دو عالم صلی اللہ   علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ نذر نہ مانا کرو کہ نذر تقدیر کو نہیں ٹالتی،بلکہ اس کے ذریعے تو کنجوس سے مال نکلوایا جاتا ہے۔(الصحیح لمسلم،ج03،ص1261،رقم الحدیث1640،دار إحياء التراث العربي، بيروت)(سنن ترمذی، ج03،ص164،رقم الحدیث 1538 ،دار الغراب الإسلامي  ،بيروت) (سنن نسائی،ج07، ص16، رقم الحدیث3805،مكتب المطبوعات الإسلاميہ ، حلب)

   شرح مشکوۃ للطیبی اور لمعات التنقیح میں ہے،واللفظ للمعات :” ولما كان من عادة الناس أنهم ينذرون لجلب المنافع ودفع المضار، وذلك فعل البخلاء، نهوا عن ذلك، وأما غير البخيل فيعطي باختياره بلا واسطة النذر، ففي النهي عن النذر لهذا الغرض ترغيب على النذر، ولكن على جهة الإخلاص“جب لوگوں کی عادت ہے کہ فوائد کے حصول اور نقصانات سے بچنے کے لیے نذر مانتے ہیں،جو کنجوسوں کا فعل ہے،اسی وجہ سے اس طرح نذر ماننے سے منع کیا گیا ، جبکہ جو کنجوس نہ ہو وہ   نذر نہ بھی مانے جب بھی اپنے اختیار سے دیتا ہے،لہٰذ مذکورہ غرض سے نذر ماننے سے منع کرنے میں در اصل اخلاص کےساتھ نذر ماننے کی ترغیب ہے۔ (لمعات التنقيح في شرح مشكاة المصابيح ،ج06،ص 255،دارالنوادر)(شرح مشکاۃ للطیبی، ج08،ص2444،مطبوعہ مکہ مکرمہ ریاض)

   شرح مشکوۃ للطیبی اور مفاتیح فی شرح المصابیح میں ہے،واللفظ للطیبی:” معنى نهيه عن النذر إنما هو لتأكيد الأمر وتحذير التهاون به بعد إيجابه، ولو كان معناه الزجر عنه حتى لا يفعل، لكان في ذلك إبطال حكمه وإسقاط لزوم الوفاء به“نذر سے منع کرنے کا مقصدنذر کے معاملے کی تاکید بیان کرنا ،اور اس کو لازم کرنے کے بعد اس میں سستی کرنے سے خبردار کرنا ہے،ورنہ اگر نذر سے منع کرنا مقصد ہوتا  ، کہ نذر  مانی ہی نہ جائے ،اس میں تو نذر کے حکم کو باطل کرنا،اور اس کو پورا کرنے کے  لازم ہونے کو ساقط کرنا ہے۔(شرح مشکاۃ للطیبی، ج08،ص2444،مطبوعہ مکہ مکرمہ، ریاض)(المفاتيح في شرح المصابي، ج04،ص 174،دار النوادر)

   ارشاد الساری شرح صحیح البخاری ،شرح المصابیح لابن ملک اور شرح مشکوۃ للطیبی میں ہے،واللفظ للآخر:”أقول: تحريره أنه علل النهي بقوله:فإن النذر لا يغني من القدر ونبه به علي أن النذر المنهي عنه هو النذر المقيد الذي يعتقد أنه يغني من القدر بنفسه، كما زعموا. وكم نرى في عهدنا جماعة يعتقدون ذلك؛ لما شاهدوا من غالب الأحوال حصول المطالب بالنذر. وأما إذا نذر واعتقد أن اللہ تعالي هو الذي يسهل الأمور، وهو الضار النافع، والنذور كالذرائع والوسائل، فيكون الوفاء بالنذر طاعة، ولا يكون منهياً عنه، كيف وقد مدح اللہ تعالي الخيرة من عباده بقوله جل ثناؤه:﴿ يُوفُونَ بِالنَّذْرِ ويَخَافُونَ يَوْمًا كَانَ شَرُّهُ مُسْتَطِيرًا﴾،﴿نَذَرْتُ لَكَ مَا فِي بَطْنِي مُحَرَّرًا“ترجمہ:میں کہتا ہوں :تقریر ِمسئلہ یہ ہے کہ سرکاردو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نذر  سے منع کرنے کی علت یہ بیان فرمائی کہ نذر تقدیر کو نہیں ٹالتی،لہٰذا یہ علت بیان کرکے تنبیہ فرمادی کہ ممنوع نذر وہ ہے، جو  اس اعتقاد کے ساتھ ہوکہ  نذر  تقدیر کو ٹال دے گی،جیسا کہ کچھ لوگوں نے گما ن کیا۔ہم اپنے زمانے میں کتنے ہی لوگوں کو دیکھتے ہیں، جو یہ اعتقاد رکھتے ہیں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ اکثر نذر سے اپنی مرادوں کو پورا  ہوتا دیکھتے ہیں۔بہر حال جب اس اعتقاد کے ساتھ نذر مانے کہ اللہ رب العزت ہی معاملوں کو آسان کرتا ہے،وہی نقصان و نفع کا مالک ہے،اور نذریں اس کا ذریعہ اور وسیلہ ہیں،پھر نذر کو پورا کرنا تو نیکی ہے،ممنوع نہیں اور ممنوع ہو بھی کیسے سکتا ہے کہ اللہ رب العزت اپنے بہترین بندوں کی تعریف کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ’’ وہ اپنی مَنّتیں پوری کرتے ہیں اور اس دن سے ڈرتے ہیں جس کی برائی پھیلی ہوئی ہوگی “”میں تیرے لیے منت مانتی ہوں جو میرے پیٹ میں ہے کہ خالص تیری ہی خدمت میں رہے۔‘‘( إرشاد الساري لشرح صحيح البخاري ،ج09،ص 353، المطبعة الكبرى الأميريہ، مصر)(شرح المصابيح لابن الملك ،ج04،ص 104، إدارة الثقافة الإسلاميہ)(شرح مشکاۃ للطیبی،ج08، ص2444،مطبوعہ مکہ مکرمہ، ریاض)

   شرح النووی على مسلم میں ہے:” قال القاضي عياض ويحتمل أن النهي لكونه قد يظن بعض الجهلة أن النذر يرد القدر ويمنع من حصول المقدر فنهى عنه خوفا من جاهل يعتقد ذلك وسياق الحديث يؤيد هذا “ قاضی عیاض فرماتےہیں کہ یہاں پر منع فرمانا اس وجہ سے ہے کہ بعض جاہلین یہ گمان کرلیتے ہیں کہ نذر تقدیر کو ٹال دیتی ہے،اور جو تقدیر میں ہے اس کو ہونے سے بھی روک دیتی ہے،لہٰذا اس سے اس خوف سے منع کیا گیا کہ کہیں کوئی جاہل اس کا اعتقاد نہ رکھ لے اور حدیث کا سیاق اس پر دلالت کرتا ہے۔(شرح النووی علی مسلم،ج11،ص 99، دار إحياء التراث العربي ،بيروت)

   مذکورہ حدیث کے تحت مرأۃ المناجیح میں ہے:”بات بات پر نذر مان لینے کے عادی نہ بنو کہ پھر نذر پوراکرنا مشکل و بھاری معلوم ہوتا ہے یا نذر میں یہ اعتقاد نہ رکھو کہ نذر سے ارادۂ الٰہی و حکم ربانی بدل جاتا ہے کہ یہ عقیدہ غلط ہے یا صدقہ و خیرات صرف نذر کی صورت میں ہی نہ کیا کروکہ جب کوئی اٹکا، تو نذر مانی اور کام نکل جانے پر خیرات کی، بلکہ یوں ہی صدقہ کرنے کی بھی عادت ڈالو ،لہٰذا یہ نذر سے ممانعت نہیں ،بلکہ ان چیزوں سے ممانعت ہے، لہذا یہ حدیث ان آیات کے خلاف نہیں جن میں نذر پوری کرنے والوں کی تعریف کی گئی ہے،رب تعالیٰ فرماتاہے﴿ یُوۡفُوۡنَ بِالنَّذْرِاور حضرت حنہ کا واقعہ بیان فرمایا ہے: ﴿ اِنِّیۡ نَذَرْتُ لَکَ مَا فِیۡ بَطْنِیۡ  اور حضرت مریم کو نذر کا حکم دینا بیان فرماتاہے﴿ اِنِّیۡ نَذَرْتُ لِلرَّحْمٰنِ صَوْمًاصحابہ کرام نے نذریں مانی ہیں، لہٰذا حدیث پر یہ اعتراض نہیں کہ ’’ لا تنذروا ‘‘نہی ہے اور نہی حرمت پیدا کرتی ہے ،تو چاہیے کہ نذر ماننا حرام ہو اور حرام کا پورا کرنا واجب تو کیا ، مباح بھی نہیں ہوتا۔‘‘(مرأۃ المناجیح ،ج05،ص203،نعیمی کتب خانہ، گجرات)

   فتاوی رضویہ میں ہے:”اﷲ عزوجل نے(نذر کو) پورا کرنے کا قرآن مجید میں حکم دیا ہے ﴿وَلْیُوۡفُوۡا نُذُوۡرَہُمْ ﴾یعنی مسلمانوں پر لازم کہ اپنی نذریں پوری کریں،نذریں پوری کرنے والوں کی تعریف فرمائی ہے﴿ یُوۡفُوۡنَ بِالنَّذْرِ﴾ نذر پوری کرتے ہیں۔رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے نذر ماننے سے منع نہیں فرمایا، بلکہ اس کی وفا کا حکم دیا ہے۔ بخاری شریف میں ام المومنین صدیقہ رضی اﷲ تعالٰی عنہا سے ہے :” من نذران یطیع ﷲ فلیطعہ ومن نذران یعصیہ فلایعصہیعنی رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں جو کسی طاعت الٰہی مثل نماز و روزہ و صدقہ وغیرہ کی منت مانے وہ بجالائے اور جو کسی گناہ کی منت مانے وہ باز رہے۔ہاں یہ سمجھنا کہ نذر ماننے سے تقدیر الٰہی بدل جائے گی جو نعمت نصیب میں نہیں ،وہ مل جائے گی، جو بَلا مقدر میں ہے ،وہ ٹل جائے گی،یہ اعتقاد فاسد ہے، ایسی ہی نذر سے نبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے، حدیث شیخین:’’لاتنذروا، فان النذرلایغنی من القدر شیأ وانما یستخرج بہ من البخیل‘‘ نذر نہ مانا کرو، کیونکہ نذر تقدیر سے مستغنی نہیں کرتی، سوائے اس کے اور کچھ نہیں کہ نذر کے سبب بخیل سے مال خرچ کرایا جاتا ہے۔“(فتاوی رضویہ،ج13،ص587،رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم