Kya Qasam Ko Khatam Kiya Ja Sakta Hai ?

کیا قسم کو ختم کیا جاسکتا ہے؟

مجیب:ابوالفیضان مولانا عرفان احمد عطاری

فتوی نمبر:WAT-2792

تاریخ اجراء: 03ذوالحجۃالحرام1445 ھ/10جون2024  ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   اگر کوئی شخص قسم کھائے کہ میں آئندہ فلاں کام نہیں کروں گا ، پھر کچھ عرصہ کے بعد یہ کہہ دے کہ میں نے جو قسم کھائی تھی ، میں اسے ختم کرتا ہوں ، تو کیا حکمِ شرعی ہوگا ؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   پوچھی گئی صورت میں،یہ کہنے سے کہ :"میں قسم ختم کرتاہوں" قسم ختم نہیں ہوگی،اگرقسم کے خلاف عمل کیا،توقسم کاکفارہ اداکرنا،لازم ہے،کفارہ ادا کیے بغیر بری الذمہ نہیں ہوگا ۔

   قسم کا کفارہ :قسم کے کفارے کی نیت سے ایک غلام آزاد کرنا یا دس مسکینوں کو کپڑے پہنانا یا انہیں دو وقت پیٹ بھر کر کھانا کھلانا لازم ہوتا ہے اوراس بات کا بھی اختیار ہوتا ہے کہ چاہے توکھانے کے بدلے میں ہرمسکین کو الگ الگ ایک صدقۂ فطر کی مقدار یعنی آدھا صاع (دو کلو میں اَسی گرام کم) گندم یا ایک صاع (چار کلو میں ایک سو ساٹھ گرام کم) جَو یا کھجور یا کشمش دے دے یا ان چاروں میں سے کسی کی قیمت دے دے۔ اگر ان کے علاوہ کوئی دوسری چیز دینا چاہے ، تو اس چیز کی قیمت کا آدھے صاع گندم یا ایک صاع کھجور یا جَو کی قیمت کے برابر ہونا ضروری ہے۔ نیز ایک ہی مسکین کو دینا چاہے تو ضروری ہے کہ دس دن تک ایک ایک الگ صدقۂ فطر کی بقدر دے۔

   نوٹ:اوپرمذکورکفارہ  مسکین کے بجائے شرعی فقیرکوبھی دیاجاسکتاہے ۔

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم