Mannat Pori Hone Ke Baad Roze Rakhne Mein Takheer Karna Kaisa ?

منت پوری ہونے کے بعد روزے رکھنے میں تاخیر کرنا کیسا؟

مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر: FAM-049

تاریخ اجراء: 27محرم الحرام5144ھ/15 اگست 2023ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ

(1) اگر کوئی شخص کسی کام کے ہونے پر روزہ رکھنے کی منت مانے اور اس کا وہ کام ہوجائے، تو اب ایسی صورت میں اس پر منت کے روزے رکھنا لازم ہوگا، لیکن اگر اس کے والدین گرمی کی وجہ سے اُسے روزہ نہ رکھنے دیں اور سردی میں رکھنے کا کہیں، تو کیا اس تاخیر کی وجہ سے وہ شخص گنہگار ہو گا یا نہیں؟

(2)نیز اگر کسی   پر منت کے روزوں کے ساتھ ساتھ ،  رمضان کے قضا روزے بھی  ذمہ پر باقی ہوں ،تو وہ  پہلے کون سے روزے رکھے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

(1)سب سے پہلے یہ سمجھ لیجئے کہ نذرِ  معین یعنی جس میں کسی معین دنوں میں نذر کو پورا کرنے کی منت مانی گئی ہو، تو ایسی نذرکو اُسی معین دنوں میں پورا کرنا واجب ہوتا ہے ،بغیر کسی عذر کے تاخیر کرنا جائز نہیں ہوتا اور مطلق نذر یعنی جس میں کسی خاص وقت کے ساتھ نذر نہ مانی گئی ہو  ،تو اس میں  فوری طور پر نذر کو ادا کرنا واجب نہیں ہوتا ،بلکہ کسی بھی وقت میں نذر کو پورا کرنے کی اجازت ہوتی ہے، لیکن بہتر یہی ہوتا ہے کہ اسے بھی جلد ادا کرلیا جائے کہ زندگی کا بھروسہ نہیں ۔

   اس تفصیل کی روشنی میں جواب واضح ہوگیا کہ اگر پوچھی گئی صورت میں اس شخص نے روزوں کی منت کسی خاص وقت کے ساتھ مختص کر کے مانی تھی،جیسے کسی معین مہینے یا معین دن  روزہ رکھنے کی منت مانی تھی ،تو ایسی صورت میں اس نذرکو اسی مخصوص وقت میں پورا کرنا واجب ہو گا،بغیر کسی شرعی عذر کے تاخیر کرنے کی اجازت نہیں ہوگی ، لیکن  اگر مطلق روزوں کی منت مانی تھی اورکسی خاص وقت  کے ساتھ اسے  مختص نہیں کیا تھا، توایسی صورت میں اُن روزوں کو  بعد میں رکھنے کی اجازت ہے اور اس تاخیر سے وہ گنہگار بھی نہیں ہوگا۔

(2) جس کے ذمہ پر منت  کے روزے ہوں اور ساتھ  رمضان کے قضا  روزے  بھی باقی ہوں ،تواب دیکھنا یہ ہوگا کہ اگر اس کے ذمہ نذر معین کے روزے ہوں جنہیں کسی خاص وقت میں رکھنے کے متعلق نذر مانی گئی ہو، تو اب  پہلے نذر معین کے روزے رکھنے ہوں گے کہ ان کا وجوب فوری ہے،جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا ۔اور اگر مطلق نذر کے روزے ہوں ،تو اب پہلے رمضان کے قضا روزے رکھے جائیں گے، کیونکہ اگرچہ  رمضان کے قضا اورمطلق نذر کے روزوں میں سے کسی کا بھی وجوب فوری نہیں،لیکن  قضا روزے،منت  کے روزوں سے  درجہ میں قوت والے ہیں کہ  قضا روزوں کے واجب ہونے کا سبب رب تعالی کی طرف سے ہے کہ اُس نے اپنے بندوں پر رمضان کے روزے فرض کیے، جبکہ منت کے روزے  خود بندے نے اپنے اوپر واجب کیے،   لہذا رمضان کے قضا روزے پہلے رکھنے ہوں گے کہ جس کا سبب قوی ہوتا ہے ،ترجیح اسی کو ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اگر کسی نے ایک روزے میں منت  اور رمضان کے قضا روزے کی نیت کی تو اس کا قضا روزہ ہی ادا ہوگا۔

   نذر غیر معین میں ادائیگی کا وجوب فوری نہیں اس میں تاخیر کی اجازت ہے،جیسا کہ بدائع الصنائع میں ہے: ’’والكلام في كيفية وجوب القضاء أنه على الفور أو على التراخي كالكلام في كيفية الوجوب في الأمر المطلق عن الوقت أصلا، كالأمر بالكفارات والنذور المطلقة ونحوها، وذلك على التراخي عند عامة مشائخنا، ومعنى التراخي عندهم أنه يجب في مطلق الوقت غير عين، وخيار التعيين إلى المكلف ففي أي وقت شرع فيه تعين ذلك الوقت للوجوب، ...وحكى الكرخي عن أصحابنا أنه على الفور، والصحيح هو الأول‘‘ملتقطاً۔ترجمہ:قضا روزوں کےفوری طور واجب ہونے یا نہ ہونے میں  وہی کلام ہے، جو  کلام ان فرائض کے معاملے میں ہوتا  ہے،جن میں وقت  کی اصلاً کوئی قید نہیں ،جیسے  کفارے اور مطلق نذر  وغیرہ  کے روزے ۔اور یہ ہمارےعام مشائخ کے نزدیک فوری طور پر واجب نہیں  اور مشائخ کے نزدیک فوری طور پر واجب نہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ   یہ مطلق وقت میں بغیر کسی تعیین کے واجب ہوتے ہیں اور تعیین  کا اختیار مکلف کو ہوتا ہے،  تو وہ اسے  جس وقت میں بھی شروع کرے  گا  ،وجوب کے لیے وہ وقت معین ہوجائے گا اور امام كرخی رحمۃ اللہ علیہ نے ہمارے اصحاب سے حکایت کیا ہے  کہ یہ فوری طور پر واجب ہوتے ہیں اور صحیح  پہلا قول ہی ہے۔(بدائع الصنائع،جلد2،صفحہ104،دار الکتب العلمیہ، بیروت)

   نذرِ مطلق اور تمام واجبات مطلقہ جیسے رمضان کے قضا روزے وغیرہ ،تو ان کا وجوب بھی فوری نہیں،جیسا کہ بدائع الصنائع ہی میں ہے:’’النذر المطلق عن الوقت، وسائر الواجبات المطلقة عن الوقت من قضاء رمضان والكفارة وغيرهما، أنها تجب في مطلق الوقت في غير تعيين، وإنما يتعين الوجوب إما باتصال الأداء به، وإما بآخر العمر إذا صار إلى حال لو لم يؤد لفات بالموت‘‘ ترجمہ:وہ نذر جس میں وقت کی قید نہ ہو اور  دیگرتمام واجبات  جو وقت کی قید سے خالی ہوں،جیسے رمضان کے قضا روزے اور کفارے وغیرہ ،تو یہ مطلق وقت  میں بغیر کسی  تعیین کے واجب ہوتے ہیں  اور ان  کا وجوب یا تو  ان کی ادائیگی سے متصل ہو کر متعین ہوتا ہے یا عمر کے آخری حصہ میں وجوب متعین ہوتا ہے کہ جب بندہ اس حالت کی طرف پہنچ جاتا ہے کہ  اگر اسے ادا نہ کرے ،تو  موت کی وجہ سے  یہ فوت ہوجائیں گے۔(بدائع الصنائع،جلد5،فصل فی حکم النذر،صفحہ94،دار الکتب العلمیہ، بیروت)

   نذر معین کا وجوب فوری ہے،اس میں تاخیر کی اجازت نہیں ،جیسا کہ بدائع الصنائع ہی  میں ہے:” وإن أضيف إلى وقت معين بأن قال:للہ علي أن أصوم غدا يجب عليه صوم الغد وجوبا مضيقا، ليس له رخصة التأخير من غير عذر‘‘ترجمہ:اگر نذر کی معین وقت کی طرف اضافت کی ،جیسے یوں کہا کہ اللہ کے لیے مجھ  پر  کل کا روزہ رکھنا ہے، تو اس پر کل کا روزہ رکھنا   اس طور پر واجب ہوگا کہ اس کے وجوب میں وسعت نہیں ہوگی اور اس کے لیے بغیر کسی عذر کے تاخیر کی رخصت نہیں ۔(بدائع الصنائع،جلد5،فصل فی حکم النذر،صفحہ94،دار الکتب العلمیہ بیروت)

   معلق منت  میں شرط  کے وجود سے پہلے تو روزہ رکھنا  جائز نہیں، لیکن شرط پائے جانے کے بعد تاخیر کی اجازت ہے،جیسا کہ رد المحتار  علی الدر المختار میں ہے:’’أن المعلق على شرط لا ينعقد سببا للحال كما تقرر في الأصول بل عند وجود شرطه، فلو جاز تعجيله لزم وقوعه قبل سببه فلا يصح، ويظهر من هذا أن المعلق يتعين فيه الزمان بالنظر إلى التعجيل، أما تأخيره فالظاهر أنه جائز إذ لا محذور فیہ‘‘ترجمہ:وہ  منت جو کسی شرط پر معلق ہو، تو وہ  فی الحال   سبب کے طور پر منعقد نہیں ہوتی،  جیسا کہ اصول میں اسے  بیان کردیا ہے، بلکہ ایسی منت شرط کے پائے جانے کے وقت  سبب بنتی ہے، تو اگر  شرط  کے پائے جانے سے پہلے  منت کی ادائیگی جائز ہو، تو اس کا سبب سے پہلے ہونا لازم آئے گا    اور یہ درست نہیں ہوگا اور اس سے ظاہر ہوا کہ معلق   میں شرط سے پہلے منت کی ادائیگی کی طرف دیکھتے ہوئے زمانہ  متعین ہوتا ہے،بہرحال شرط پائے جانے کے بعد منت کی ادائیگی میں تاخیر،تو ظاہر اس کا جائز ہونا ہے، کیونکہ اس میں کوئی  قباحت نہیں۔(رد المحتار علی الدر المختار،جلد5،مطلب:فی احکام النذر،صفحہ546،مطبوعہ کوئٹہ)

   فتاوی  عالمگیری میں ہے:’’اذا قال للہ علی أن اصوم یوما فانہ یلزمہ صوم یوم وتعیین الأداء  الیہ وھو علی التراخی بالاجماع‘‘ترجمہ:اگر کسی نے یوں کہا کہ اللہ کے لیے مجھ پر ایک دن کا روزہ رکھنا ہے، تو اس پر ایک دن کا روزہ رکھنا لازم ہوگا اور ادائیگی کی تعیین کا اسے اختیار ہوگا اور وہ  بالاجماع ،علی التراخی لازم ہوگا ۔(الفتاوی الھندیۃ،جلد1،کتاب الصوم،باب النذر،صفحہ230،دار الکتب العلمیہ ،بیروت)

   قضا روزہ درجہ میں قوی ہے کہ اس کے وجوب کا سبب اللہ تعالی کی طرف سے ہے،جیسا کہ غمز عیون البصائر  شرح الاشباہ والنظائرمیں ہے:’’قولہ:لو نوى فی الصوم القضاء والکفارۃ کان عن القضاء،لان سببہ ایجاب اللہ تعالی وسبب الکفارۃ ایجاب العبد علی نفسہ،فانصرف الی الاقوی لترجحہ‘‘ترجمہ:مصنف کا قول  کہ اگر کسی نے قضا اور کفارے کے روزے کی نیت کی، تو قضا روزہ ادا ہوگا ۔کیونکہ قضا   روزے کے لازم ہونے کا سبب اللہ تعالی  کا واجب کرنا ہے اور کفارے کے روزے کے لازم ہونے کا سبب خود بندے کا اپنے اوپر اس کو واجب کرنا ہے، تو اسے اقوی کی طرف  پھیرا جائے گا، اس کے راجح  ہونے کی وجہ سے۔(غمز عیون البصائر شرح الاشباہ والنظائر،جلد1، صفحہ146،دار الکتب العلمیہ، بیروت)

   ایک روزے میں قضا اور نذر کے روزے کی نیت کی تو قضا روزہ ادا ہوگا،جیسا کہ فتاوی عالمگیری میں ہے:’’اذا نوی عن قضا ء رمضان والنذر  کان عن قضا ء  رمضان استحسانا‘‘ترجمہ:اگر کسی نے رمضان کے قضا اور منت کے روزوں کی نیت کی ،تو استحسانا  ًرمضان کا قضا روزہ ادا ہوگا۔(الفتاوی الھندیۃ،جلد1،کتاب الصوم،صفحہ217،دار الکتب العلمیہ، بیروت)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم