Sharai Ahkam Ki Mannat Ka Hukum

شرعی احکام کی منّت کا حکم

مجیب:مولانا محمد فراز عطاری مدنی

مصدق:مفتی ابو محمد علی اصغر عطاری

تاریخ اجراء:ماہنامہ فیضانِ مدینہ اگست 2021

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ایک اسلامی بہن بے پردگی کرتی تھی ، اجنبی مَردوں کے سامنے بال ، گلا ، کلائیاں وغیرہ کھلی رہتی تھیں ، اس نے منت مانی کہ اگر میرا فلاں کام ہوگیا تو میں اللہ کی رضا کیلئے شرعی پردہ کروں گی۔ اس کا وہ کام بھی ہوچکا ہے ، پوچھنا یہ ہے کہ کیا یہ منت شرعی منت ہے یا نہیں؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   عورت کا بال ، کلائیاں ، پنڈلیاں ، گلا وغیرہ اجنبی مَردوں سے چھپانا لازم ہے۔ ان اعضاء کی بے پردگی کرنا ناجائز و گناہ ہے۔ شرعی منت کی شرائط میں سے ایک شرط یہ بھی ہے کہ جس چیز کی منت مانی جائے وہ پہلے سے ہی شریعت کی طرف سے لازم نہ ہو۔ یہاں چونکہ عورت پرپردہ کرنا پہلے سے ہی شریعت کی طرف سے لازم ہے ، اس لئے یہ منت شرعی منت نہیں کہلائے گی ، مگر پردے کی پابندی عورت پر بدستور لازم رہے گی۔

   پردے کے بارے میں اللہ تبارک وتعالیٰ کا ارشادِ پاک ہے :(وَ قَرْنَ فِیْ بُیُوْتِكُنَّ وَ لَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاهِلِیَّةِ الْاُوْلٰى)ترجمۂ کنزُالایمان : اور اپنے گھروں میں ٹھہری رہو اور بے پردہ نہ رہوجیسے اگلی جاہلیت کی بے پردگی۔ (پ22 ، الاحزاب : 33)

   اس آیت کی تفسیرمیں مفسرِقرآن ، صدرُ الافاضل ، حضرت علامہ مولانا سید محمد نعیم الدین مراد آبادی رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : “ اگلی جاہلیت سے مراد قبلِ اسلام کا زمانہ ہے ، اس زمانہ میں عورتیں اتراتی نکلتی تھیں ، اپنی زینت ومحاسن کا اظہار کرتی تھیں کہ غیر مرد دیکھیں ، لباس ایسے پہنتی تھیں ، جن سے جسم کے اعضاء اچھی طرح نہ ڈھکیں۔ “ (خزائن العرفان ، ص780)

   بہارِ شریعت میں ہے :” آزاد عورتوں اور خنثی مشکل کیلئے سارا بدن عورت ہے ، سوا منہ کی ٹکلی اور ہتھیلیوں اور پاؤں کے تلووں کے ، سر کے لٹکتے ہوئے بال اور گردن اور کلائیاں بھی عورت ہیں ، ان کا چھپانا بھی فرض ہے۔ “ (بہارشریعت ، 1 / 481)

   منت کی شرائط بیان کرتے ہوئے مراقی الفلاح میں فرمایا :” والثالث ان یکون لیس واجبا قبل نذرہ بایجاب اللہ تعالیٰ ، کالصلوات الخمس والوتر۔ “ ترجمہ : تیسری شرط یہ ہے کہ منت سے پہلے وہ چیز اللہ تعالیٰ کی طرف سے لازم نہ ہو ، جیسے پانچوں نمازیں اور وتر۔(مراقی الفلاح متن الطحطاوی ، ص692)

   بہارشریعت میں ہے : ” شرعی منّت جس کے ماننے سے شرعاً اس کا پورا کرنا واجب ہوتا ہے ، اس کے لیے مطلقاً چند شرطیں ہیں۔ (۱)ایسی چیز کی منّت ہو کہ اس کی جنس سے کوئی واجب ہو ، عیادتِ مریض اور مسجد میں جانے اور جنازہ کے ساتھ جانے کی منت نہیں ہو سکتی۔ (۲)وہ عبادت خود بالذات مقصود ہو کسی دوسری عبادت کے لیے وسیلہ نہ ہو ، لہٰذا وضو و غسل و نظرِ مصحف کی منّت صحیح نہیں۔ (۳)اس چیز کی منّت نہ ہو جو شرع نے خو د اس پر واجب کی ہو ، خواہ فی الحال یا آئندہ مثلاً آج کی ظہر یا کسی فرض نماز کی منّت صحیح نہیں کہ یہ چیزیں تو خود ہی واجب ہیں۔ (۴)جس چیز کی منّت مانی وہ خود بذاتہٖ کوئی گناہ کی بات نہ ہو اور اگر کسی اور وجہ سے گناہ ہو تو منّت صحیح ہو جائے گی ، مثلاً عید کے دن روزہ رکھنا منع ہے ، اگر اس کی منّت مانی تومنّت ہو جائے گی اگرچہ حکم یہ ہے کہ اُس دن نہ رکھے ، بلکہ کسی دوسرے دن رکھے کہ یہ ممانعت عارضی ہے یعنی عید کے دن ہونے کیوجہ سے ، خود روزہ ایک جائز چیز ہے۔ (۵)ایسی چیز کی منت نہ ہو جس کا ہونا محال ہو ، مثلاً یہ منت مانی کہ کل گزشتہ میں روزہ رکھوں گا یہ منت صحیح نہیں۔ “(بہارشریعت ، 1 / 1015)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم