نفع اور نقصان کی تقسیم کاری کا کیا طریقہ ہوگا؟

مجیب: مفتی علی اصغر صاحب مدظلہ العالی

تاریخ اجراء:ماہنامہ فیضان مدینہ شَوَّالُ /ذوالقعدہ1442ھ جون2021

دَارُالاِفْتَاء اَہْلسُنَّت

(دعوت اسلامی)

سوال

    کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ اگر برانڈ کا نام ، رجسٹریشن ، محنت ، مصنوعات کی تیاری اور ترسیل وغیرہ سب کچھ ایک فریق کی طرف سے ہواور وہ شرکت میں صرف10,000روپے کاحصہ ملائے جبکہ دوسرا فریق 90,000روپے ملائے تو اس صورت میں کیا کام کرنے والا فریق اپنا نفع%80اور دوسرے فریق کا نفع % 20رکھ سکتا ہے؟ اور نقصان ہونے کی صورت میں نقصان کی رقم کی تقسیم کاری کا کیا طریقہ کار ہوگا؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

    اگر ایک شریک عامل ہو یعنی ورکنگ پارٹنر ہو اور اس کے لیے ، اس کے دئیے گئے راسُ المال یعنی کیپٹل کے تناسب سے زیادہ نفع مقررکرنے کی شرط لگائی جائے تو اس میں شرعاً حرج نہیں البتہ شرکت کا معاہدہ ہوتے وقت دونوں فریقین کو علم ہونا ضروری ہے کہ کس کا نفع کیا ہوگا۔

    پوچھی گئی صورت میں جس فریق نے صرف دس ہزار روپے ملائے اور وہ ورکنگ بھی کر رہا ہے تو اپنے کیپٹل کے تناسب سے زیادہ نفع مقرر کر سکتا ہے لہٰذا اس نے اپنے لئے 80 فیصد نفع طے کیا ہے تو شرعاً کوئی حرج نہیں۔

(ردالمحتار ، 6 / 479)

    البتہ نقصان کا اصول یہ ہے کہ جس کا جتنا فیصد سرمایہ یعنی کیپٹل ہے وہ صرف اتنے فیصد نقصان کو برداشت کرے گا۔

    بہارِ شریعت میں ہے : “ نفع میں کم و بیش کے ساتھ بھی شرکت ہوسکتی ہے مثلاً ایک کی ایک تہائی اور دوسرے کی دو تہائیاں ، اور نقصان جو کچھ ہوگا ، وہ راس المال کے حساب سے ہوگااس کے خلاف شرط کرناباطل ہے۔ ‘‘

(بہارِ شریعت ، 2 / 491 ، ردالمحتار ، 6 / 469)

وَاللہُ اَعْلَمُ  عَزَّوَجَلَّ  وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم